والد گرامی شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کے پیر طریق چشتیہ
حضرت حافظ سید محمد علی خیرآبادی
حضرت حافظ سید محمد علی صاحب خیرآبادی ؒ، خواجہ تونسویؒ کے اولین خلفا میں سے تھے ۔ خیرآباد میں ان کی خاتقاہ علم و فضل کا مر کز اور فیوض و برکات کا منبع تھی ۔ اودھ او ردکن میں چشتیہ سلسلہ کی اشاعت کا کام اسی خانقاہ میں بیٹھ کر کیا گیا تھا وہ بے پنا ہ عزم واستقلال کے مالک تھے ۔ نامساعد حالات سے بالکل متاثر نہ ہوتے تھے۔
ولادت اور نسب:۔
حافظ صاحب ؒ کی ولادت باسعادت ۱۱۹۲ھ کو ہوئی تھی (۱) ان کے والد ماجد مولوی شمس الدینؒ ایک علمی خاندان کے فرد تھے ۔ ان کے اجد اد میں ایک بزرگ حضرت شیخ سعد خیرآبادی ؒ، حضرت شاہ میناؔ لکھنویؒ کے خلیفہ تھے او ران کی شہر ت دور دور پھیلی ہوئی تھی۔ حافظ صاحبؒ کا خاندان بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا۔ علم وفضل میں اس گھرانے کو ایک امتیازی رتبہ حاصل تھا۔
ایام طفلی:۔
بچپن ہی سے حافظ صاحبؒ کی طبیعت عبادت کی طرف راغب تھی ۔ رات کے آخر ی حصہ میں اٹھ کر وہ یادحق میں مشغول ہو جاتے تھے۔ (۲) شریعت کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ ایک دن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی جگہ جارہے تھے ۔ راستہ میں بیر کے درخت ملے ۔ سب لڑکو ں نے ان درختورں سے پھل توڑ کر کھائے ۔ حافظ صاحبؒ سے کھانے کے لیے کہا گیا تو فرمایا یہ درخت غیر کی ملک ہیں، بغیر مالک کی اجازت کے کیوں کر کھاؤں (۳)
تعلیم:۔
سب سے پہلے حضرت سید محمد علی صاحبؒ نے قرآن پاک حفظ کیا۔ اس کے بعد خیرآباد میں مولانا عبدالوالی صاحب سے جو اپنے زمانہ کے مشہور عالم تھے۔ شرح وقایہ تک علم حاصل کیا۔ پھر شاہ جہاں پور تشریف لے گئے اور وہا ں کچھ عرصہ تک تحصیل علوم میں مشغول رہے۔ یہاں شہر کے باہر ایک مسجد میں ان کا قیام رہا ۔ شاجہاں پو ر کی علمی دنیاجب ان کی تشنگی علم کو نہ بجھا سکی تو دہلی کا رخ کیا کہ وہی ہندوستا ن میں علم وادب، احسان وسلوک کا آخر ی مرکز سمجھا جاتا تھا ۔ اس وقت حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے گھرانے نے علم کی وہ شمع روشن کر رکھی تھی ، جس کے گرد دور دور سے علمی پروانے جمع ہو رہے تھے۔ دہلی میں مشکوٰۃکا سبق انہوں نے حضرت شاہ عبدالقادر ؒ سے لیا ،(۴) پھر حرمین شریفین میں صحیح بخاری کی سماعت فرمائی ۔ جب شا ہ سلیمان تو نسوی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو صحیح مسلم کی سماعت کی (۵)۔ دہلی میں شاہ عبدالقادرؒ میں خدمت میں فصوص الحکم کا کچھ حصہ پڑھا(۶) ۔
مجاہدات:۔
حافظ صاحبؒ نے ابتدائی زمانہ میں سخت مجاہدات کیے تھے۔ سب سے پہلے وہ حضرت سید محمد مشتاق عرف چھیدامیاں کے مزار پر چلہ کش ہو ئے ۔ پھر شاہ مینارحمۃ اللہ علیہ کے مزار متبرکہ پر ریاضت شاقہ میں مشغول ہوگئے ۔ نمازیوں کے لیے پانی بھر بھر کرلاتے ۔ با قی وقت میں عبادت کرتے ۔ اسی طرح کافی عرصہ گزر گیا ۔ پھر حضرت قطب صاحبؒ کے مزار پر دہلی میں حاضر ہوئے او رحسب معمول مجاہدوں میں مشغول ہوگئے ۔ چندمکانوں میں اُجرت پرپانی بھر کر اپنی گزر اوقات کرتے تھے اور اکثر روزہ رکھتے تھے۔ تمام رات قرآن پاک کی تلاوت میں گزرتاتھا ۔ دہلی سے وہ اجمیر شریف پہنچے اور وہاں بارہ سال تک ایک مسجد میں مقیم رہے ۔ یہاں سے پاک پٹن کا ارادہ کیا پاک پٹن میں خواجہ محمد سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت وبزرگی شہر ت سن کر دل اس طرف متوجہ ہو گیا۔ یہاں ان کوعقیدت وارادت کا ایسا مرکز مل گیا، جس نے ان کے مجاہدںواو رریاضتوں کو صحیح راستہ پر لگا دیا۔ شاہ محمد سلیمانؒ کی صحبت نے سونے پر سہاگہ کاکام کیا۔ فطرت کی ودیعت کی ہوئی صلاحیتیں ابھر آئیں او ران کے چمکنے کا موقع مل گیا ۔
بیعت:۔
حافظ صاحب ؒ انتہائی ذوق وشوق کے ساتھ پاک پٹن سے تونسہ روانہ ہوئے ۔ شاہ محمد سلیمانؒ کی خدمت پہنچ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنی خواہش کاا بھی اظہار نہ کر سکے ۔ اسی طرح ایک سال گزر گیا۔ ایک دن حافظ صاحبؒکے دل میں خیال کہ افسوس حضرت شاہ صاحبؒ میر ے حل کی جانب متوجہ نہیں ہو تے شاہ صاحبؒ کو معلوم ہوا تو فرمایا ، جس شخص سے مجھے تعلق ہو تا ہے بظاہر میں اس کی طرف توجہ نہیں کرتا ہو ں یہ سن کرحافظ صاحب ؒ کے بے چین قلب کو اطمینان ہو ا شاہ صاحبؒ نے پہاڑ پر پاؤں رسی میں باندھ کر عبادت کرنے کی ہدایت کی ۔ عرصہ تک حافظ صاحبؒاس کے مجاہدے کرتے رہے۔ اس کے بعد شاہ محمد سلیمان صاحبؒ نے اپنے سلسلہ میں داخل کرلیا، اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔ حافظ صاحبؒ نے کچھ عرصہ تک کسی شخص کو مرید نہیں کیا۔ شیخ کو علم ہوا تو وجہ پوچھی عرض کیا اہل ہند نہایت درجہ معاصی میں مبتلا ہیں۔ اسی وجہ سے سلسلہ میں داخل نہیں کیا۔ شاہ صاحبؒ نے فرمایا تم کو اس سے کیا کام میں نے اجازت دی ہے ۔ نیک خواہ بد جو کچھ ہوں گے مجھ سے ہوں گے ۔ شیخ کا یہ حکم سننے کے بعد حافظ صاحبؒ نے بیعت کا سلسلہ شروع کردیا۔ اودھ ، پنچاب اور حیدرآباد کے ہزاروں باشندوں نے ان کے دست حق پر ست پر بیعت کی پھر حافظ صاحبؒ حرمین شریفین تشریف لے گئے ۔ وہاں دس سال تک مقیم رہے اور کچھ لوگوں کو مریدبھی کیا۔
پیرومرشدسے عقیدت:۔ حافظ صاحبؒکو اپنے پیر ومرشد سے بڑی عقیدت تھی شیخ کے نوکروں کی تک عزت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ شاہ صاحبؒ کا سائیس لکھنومیں مل گیا ، اسکی بے حد تعظیم کی(۷) حافظ صاحبؒجب اپنے شیخ کی خدمت میں جاتے تو کئی کو س پہلے سے پیادہ پاچلنے لگتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک مرید نے سوار ہو نے درخواست کی تو فرمایا
وعدہ وصل چوں شود نزدیک
آتش شوق تیز تر گردد(۸)
شاہ صاحبؒ ان کی صحبت اور خلوص کی بے حد قدر کرتے تھے اور انتہائے تعلق میں ان کو ’’شاہ ہوری‘‘ کہتے تھے۔ (۹)
بری رسموں کو دور کرنے کی کوشش :۔
حافظ صاحبؒ کی کوشش تھی کہ مسلمانوں کی سوسائٹی کی نشو ونما اسلامی اصول پر ہو وہ ہمیشہ اسلامی رسم ورواج اور طر زندگی پر زور دیتے تھے کہ بری رسموں کو رو کنے کی جدوجہد کرنا سب سے زیادہ اہم کام ہے۔خودان کے متعلق مناقب کے مصنف کا بیا ن ہے ہمیشہ سنت نبویہ کے زندہ رکھنے اور اہل ہند کی باطل رسومات کو مٹانے کے واسطے مستعداور آمادہ رہتے تھے۔ (۱۰)
حافظ صاحبؒ کی اصلاحی کوششوں کی ابتداء خودان کے گھر سے ہوئی ۔ انھوںنے اپنے گھر میں ان تمام رسومات او رتوہمات کو ختم کیا جن کو وہ غیر شرعی سمجھتے تھے۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد ان کو قصبہ موہا ن کا سفر پیش آیا حاضرین نے کہا کیا حضرت بی بی صا حبہ کی رسومات نہیں کریں گے فرمایا جہاں ہو گا وہا ں فاتحہ کردوں گا کیوں کہ اس سے غرض ایصال ثواب ہے اور وہ ہر جگہ ممکن ہے۔ یہ کیا ضرورہے کہ اسی جگہ سیوم کی فاتحہ کروں۔(۱۱)
شادی کے معاملے میں وہ غیر ضروری رسومات کو ناپسندکرتے تھے۔ایک دن اچانک صاحبزادے حافظ جمال الدین کو دلہن کے مکان پر لے گئے او ر نکاح کے لیے کہا دلہن کے گھر والوں نے بے سرو سامانی کا عذ ر کیا تو فرمایا جو کچھ اللہ اور رسول کا حکم ہے اس کے مطابق عمل کرنا چاہئیے چنانچہ قواعد شرعیہ کے مطابق نکاح ہو گیا اور کوئی غیر شرعی رسم ادا نہ کی گئی ۔
حافظ صاحبؒکے برادرزادے حافظ تراب علی صاحب کی شادی میں کاغذ کے پھول تیار کیے گئے تھے۔ حافظ صاحبؒکی نظر پڑی تو سخت رنج ہو ا ۔ فرمایا یہ بزرگ زادے ہیں اور ایسے مراسم قبیحہ کرتے ہیں یہ کہہ کر وہاں سے اُٹھ کھڑ ے ہوئے (۱۲) وہ ایسی شادیوں میں جن میں اسلامی شعار کی پابندی نہیں ہو تی تھی شرکت نہ کرتے تھے ۔ ایک شخص واجد علی خاں نے شادی میں شرکت کی درخواست کی۔ فرمایا اس زمانہ میں اس قدر مہر قرار دیا جاتا ہے کہ اس کا اد ا کرنا ناممکن ہوتاہے ۔ یہ امر نا رواہے پس ایسی تقریب نکاح میں میں شریک نہیں ہواکرتا۔(۱۳) خاں صاحب کے اس یقین دلانے پر کہ جو مہر قرار پائے گا ، وہ اسی وقت ادا کیا جائے گا۔ آپ شادی میں تشریف لے گئے۔
تقاریب میں رنڈیوں کے ناچ سے سخت نفرت تھی۔(۱۴) اگر کہیں رنڈیوں کا ناچ ہو تا ہر گز شریک نہ ہو تے ۔ (۱۵)ایک مرتبہ حیدرآباد میں حضرت شاہ یوسفؒ کے مزار پر حاضری کااتفاق ہوا تو دیکھا وہاں طوائفوں کا ناچ ہو رہاہے ۔ آپ کوا س قدر غصہ آیا کہ محفل میں پہنچ کر مشائخ کو للکار ایہ بال تمہاری داڑھی کے نہیں بلکہ زنار کے تاریں ہیں ۔ اولیا ء اللہ کے مزاروں پر ایسا فسق وفجور ہوتاہے اور تم دیکھتے ہو۔ (۱۶)
حافظ صاحبؒ مشرکانہ تہواروں میں شرکت پسند نہ فرماتے تھے۔ کہتے تھے ۔جس مسلمان نے رسم کفر کو رغبت دل سے مشاہدہ کیا اس کے ایمان میں خلل پڑا (۱۷)جب کسی قوم کے قوائے عمل مضحل ہو تے ہیں تو ان علوم اور شعبدوں میں دلچسپی پید ا ہو جاتی ہے جو بغیر ہاتھ پاؤں کو جنبش دیے آسایش کی زندگی کا دلکش خواب د کھاتے ہیں چنانچہ اس زمانہ میں عام لوگوں کو کیمیا بنانے کی فکر رہتی تھی ۔ ہر شخص اسی دھن میں وقت گزارتا تھا۔ حافظ صاحبؒ نے اپنے ملفوظات میں جگہ جگہ ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے۔(۱۸)
اخلاق:۔
حضرت حافظ محمد علی صاحب ؒاخلاق محمدی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ انسانی مساوات واخوت پر ان کا ایمان تھا۔اپنے عمل سے اس کی تائید کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دسترخوان پر بیٹھے تھے۔ نظرپڑی تو دیکھا ایک موچی، میاں اسلم کے جوتے سی رہاہے۔ فرمایا اپنے ہاتھ دھوکرآ اور کھانا کھا ۔ او راپنے پاس بٹھا کر کھانا کھلایا۔(۱۹) جاڑے کے موسم میں ایک جولاہا ان کے پاس آکرٹہر ا ، اس کے پاس جاڑے کا لباس نہ تھا۔ حافظ صاحبؒنے اس کو اپنے بستر میں اپنے پاس سلایا۔ (۲۰)
حافظ صاحبؒ جب محفل میں مدعوکیے جاتے تو کبھی ممتاز جگہ پر نہ بیٹھتے (۲۱) سفر و حضر میں خادموں کے ساتھ کام میں شریک رہتے تھے۔ بعض اوقات روٹیاں اپنے ہاتھ سے پکا لیتے تھے۔ (۲۲)اظہار مشیخت سے نفرت تھی، بلکہ اس قسم کا تواضع جس سے ترک تجرید کا اظہار ہو پسند نہ کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ترک کوبھی ترک کرنا چاہیے۔(۲۳)
اتباع سنّت:۔
حافظ صاحبؒ اتبا ع سنّت پر بہت زوردیتے تھے۔ مناقب حافظیہ میں لکھاہے: حضرت شیخ الاسلام کو چونکہ اتباع نبوی میں بہت کدو کوشش تھی ، ہمیشہ سنّت نبویہ کے زندہ رکھنے اور اہل ہند کی باطل رسومات کومٹانے کے واسطے مستعداور آمادہ رہتے تھے۔ (۲۴) ان کی مجلسوں میں مسائل شریعت اور سنّت کے علاوہ کو ئی ذکر نہیں ہو تا تھا۔ (۲۵) اپنے مرید وں کو سنت نبوی پر عمل کرنے کی برابر تاکید کرتے تھے۔ ایک شخص ہر روز صبح کو آکر قدم بوسی کرتا تھا ایک روزفرمایا آیا یہ ڈنڈوت ہے کہ فجر کو اٹھ کر ہندوؤں کی طر ح ایسا کرتا ہے ۔ السلام علیکم کہہ کر بیٹھا جانا چاہئے ،حافظ صاحبؒ اپنے مریدوں کو بتایا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کے اتباع کے بغیر کوئی چیز حاصل نہیں ہو تی اور محبت الہٰی کا دعویٰ بغیر اتباع نبوی جھوٹادعویٰ ہے۔(۲۶) حافظ صاحبؒ اپنے مریدوں کو احسان وسلوک کی صرف ان کتابوں کے مطالعہ کی ہدایت فرماتے تھے ، جن میں شریعت پر خاص زور دیا گیا ہو ۔ عوارف المعارف ان کو بہت پسندتھی او راس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں ہر مسئلہ حدیث شریف سے لکھا گیا۔ (۲۷)
مریدوںکی تربیت:۔
حافظ صاحبؒ اپنے مریدوں کی اصلاح وتربیت میں بڑی دلچسپی لیتے تھے ۔ فرمایا کرتے تھے ، مرشدوں کو مریدوں کا ا سطرح خیال رہتاہے ، جس طرح ماں کو اپنے لڑکوں کا خیال رہتاہے۔ (۲۸)
حافظ صاحبؒ اظہار مشیخت سے ناراض ہو تے تھے۔ ان کا حکم تھا کہ ہر چیز کا اخفا کیا جائے ۔ ایک دن ان کے ایک مرید میر محمد علی ان لکڑیوں پر جن سے کپڑ ا بناجاتا ہے بٹیھے ہو ئے تھے ، اتفاقاً حافظ صاحبؒ کی نظر ان پر پڑگئی ۔ فرمایا ایسا فعل نہیں کرنا چاہئے، جس سے لوگ یہ سمجھیں کہ یہ شخص نہایت متواضع اور منکسرہے ۔(۲۹) ایک مرید نے اپنی رضائی ایک مسکین کو دے دی تو سخت ناراض ہوئے فرمایا اس فعل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شخص ایسا باخدا ہے کہ ایک رضائی اسکے پاس تھی وہ بھی خدا کی راہ میں دے دی (۳۰)، فرمایا کرتے تھے ترک کو بھی ترک کرنا چاہیے ۔ مرید وں کے بال رکھنے کو اس وجہ سے ناپسند کرتے تھے کہ اس سے اظہار مشیخت ہوتا۔ (۳۱)
حافظ صاحبؒاپنے مریدوں کی ظاہری وباطنی زندگی کی اصلاح میں بڑی جدوجہد کرتے تھے ۔ مرید کرتے وقت یہ ہدایتیں فرماتے تھے۔
(۱)شریعت پر قائم رہو۔
(۲)اللہ کی محبت میں دل کو مضبوط رکھو۔
(۳) جب تک تحصیل علم سے فارغ ہو ذکرنہ کرو۔
(۴) دنیا کی محبت میں مت بیٹھو، اس محبت الہٰی کی لذت سلب ہو جاتی ہے۔ (۳۲)
تعویذ و عملیات سے اجتناب:۔
جب مذہبی ذہن پر یشان ہو تا ہے تو عملیات میں غیر معمولی اعتقاد پیدا ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے قوائے عمل شل ہو جاتے ہیں اور اوہام کا تار وپود ، زندگی کے سر چشموں کو خشک کردیتا ہے، حافظ صاحبؒ کو یہ چیز سخت ناپسند تھی مناقب میں لکھا ہے۔
’’شیخ الاسلام عملیات سے نفرت رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس سے منع فرماتے ہیں۔(۳۳) آپ نے کبھی کسی کو تعویذ نہیں دیا، ایک شخص بے حد مصر ہوا تو مولانا روم ؔکا یہ شعر کا غذ پر لکھ دیا۔
ہم دعا ازتو اجابت ہم زتو
ایمنے از تو مہابت ہم زتو(۳۵)
مثنوی مولاناروم:۔
حافظ صاحبؒ کو مثنوی مولانا روم پر بڑ ا عبور تھا۔ انہوں نے عارف روم کے معارف ربانیہ کا مطالعہ نہایت بالغ نظری سے کیا تھا اوران کو نہایت ہی بلیغ اور دل نشین انداز میں بیان کرتے تھے ۔ مناقب المحبوبین میں لکھاہے۔
’’گویند مثنوی رامثل ایشاں کسے نمی خواند‘‘(۳۵)
اشراق کی نماز کے بعد وہ مثنوی کادرس دیتے تھے۔(۳۶) مرتب مناقب حافظیہ کا بیان ہے۔
’’ اس کتاب شریف کے ساتھ حضرت شیخ الاسلامؒ کو کمال تعلق اور محبت تھی اور اس کے معانی اور مطالب اس زمانہ میں آنحضرت کی مانند کوئی نہیں بیان کرتا تھا۔ ‘‘(۳۸)
حافظ صاحبؒ اپنے مریدوں کو مثنوی کے مطالعہ کی ہدایت فرماتے تھے(۳۹) وہ مثنوی کو حقائق ومعارف اسرار رموزکا ناپیداکنار سمجھتے تھے اس لیے اس کی شرح لکھنے کو کبھی اچھانہ سمجھاایک روزمجلس میں فرمانے لگے کہ مولانا جامیؔ نے مثنوی کی شرح لکھنی شروع کی ۔ اس کے دوتین اشعار کی شرح لکھنے پائے تھے کہ آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب تمہارے شرح لکھنے سے ناخوش ہوتے ہیں۔ انہوںنے اپنے اسرار کو در پر دہ ر کھا ہے اور تم اس کو ظاہر کرنا چاہتے ہو یہ سن کر مولا نا جامیؔ نے شر ح لکھنی بند کردی ۔ (۴۰)
حافظ صاحبؒکے درس مثنوی میں ہندو بھی شریک ہوتے تھے۔ (۴۱)
درس وتدریس:۔
حافظ صاحبؒ خانقاہ میںدرس وتدریس کا سلسلہ بھی جاری رہتاتھا۔ مولانا رومؒ حضرت ابن عربی اور مولانا جامیؔ کی تصانیف کا در س وہ خوددیتے تھے اور اس اندازمیں دیتے تھے کہ بڑے بڑے عالم ان سے استفادہ کیلئے حاضر ہوتے تھے۔ مولانا فضل حق خیرآبادیؒ جو خود بڑے جید عالم تھے۔ فصوص کا درس لینے ان کی خدمت میں حاضرہو تے تھے۔ (۴۲)
حافظ صاحبؒ معاصرین کی نظرمیں:
حافظ صاحبؒ ان مخصوص بزرگوں میں تھے، جن کی روحانی عظمت اور عملی تبحّر کی تعریف کرنے پر خود ان کے معاصر علماء ومشائخ مجبور ہوگئے تھے۔ مولانا انوارالحق صاحب قدس سرہٗ لکھنو کے اکابر اولیاء میںسے تھے ۔ حافظ صاحبؒ کو وہ ہمیشہ شبلی وقت کہا کرتے تھے۔ ( ۴۳)ایک مرتبہ حافظ صاحبؒ ان کی مجلس میں تشریف رکھتے تھے۔ ایک شخص نے آکر مولانا سے مصافحہ کیا ۔ مولانا نے حافظ صاحبؒ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ان کے ہاتھ پر بوسہ دو ۔ یہ شیرِحق ہیں(۴۴) ایک مرتبہ مولانا انوار الحق صاحب نے اپنی مجلس میں فر مایا حافظ صاحبؒ دولہا ہیں اور ہم سب براتی ۔(۴۵)
لکھنؤ کے ایک دوسرے عظیم المرتبت بزرگ مولانا عبدالرحمن صاحبؒ عزت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمانے لگے۔حافظ صاحبؒ اپنے عہد کے سلطان المشائخ ہیں (۴۶)، حافظ صاحبؒ جب دلی تشریف لائے تھے تو شاہ غلام علی صاحب ؒاور شاہ عبدالقادر صاحب ؒنے ان کی بڑی خاطر مدارات کی تھی(۴۷)۔ حاجی نجم الدین، حافظ صاحب ؒ کے متعلق پیرملانی میں لکھتے ہیں۔
اور محمد علی شاہ ساکن خیرآباد
کری جوانی خرچ جن بیچ خدا کی یاد
یہ ہیں صاحب سلسلہ صد ہا لوگ مرید
دن دن شہر اجگ اندران کا ہوا مرید(۴۸)
امراء سے اجتناب :۔
حافظ صاحبؒ کا صحبۃ الاغنیاء للفقرا ء سم قاتل ، پر راسخ اعتقاد تھا وہ کسی امیر کے پا س جانا اچھا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی صحبت سے اجتناب کرتے تھے ، لیکن اگر کوئی آجاتا تو سنت نبوی کے مطابق اخلاق سے پیش آتے ، حیدرآباد کے قیام کے زمانہ میں ایک مرتبہ محی الدولہ احمد یارخاں نے عر ض کیاکہ حضور یہاں کے رئیس کو آپ سے ملنے کا بے حد شوق ہے فرمایا تم اور وہ دونوں جھوٹے ہو۔ اگر اس کو ملاقات کاا شتیاق ہوتا تو میر ے پاس نہ آتا ، اجازت کی کیا ضرورت ہے،’’ میرے دروازے پر نہ بواب ہیں نہ حجاب ہیں‘‘۔ (۴۹)
بہادر شاہ ظفر اور حافظ صاحبؒ:۔
بہادر شاہ ظفر نے چند مرتبہ حافظ صاحبؒکی خدمت حاضر ہونے کی اجازت چاہی اور ملاقات کا شوق ظاہر کیا ۔ لیکن حافظ صاحبؒ نے ہمیشہ یہ فرمایا کہ ملاقات کی حاجت نہیں ہے، شوق کو دل ہی میں رہنااچھا ہے۔بہادر شاہ نے اصرار کیا، لیکن حافظ صاحبؒراضی نہ ہوئے ، بالآخر بہادرشاہ نے کالے صاحب کی وساطت سے ملنے کی کوشش کی ،کالے صاحب وقت کے منتظر رہے۔ قطب صاحبؒ کے عرس کے دنوںمیں حافظ صاحبؒ آستانہ شریف کی مسجد میں رونق افروزتھے، کالے صاحب نے فرمایا، حافظ صاحبؒ ایک ضرورت سے جاتاہو ں جب تک میں حاضر نہ ہو ں آپ تشریف رکھیں یہ کہہ کر بادشاہ کے پاس گئے او راس کو لے آئے۔ حاضرین نے شور کیا کہ بادشاہ مسجد کی طرف آتے ہیں جب آواز حافظ صاحبؒ کے کانوں میں پہنچی فوراً دیوارپھاند کر چلے گئے۔ (۵۰)
وہ کلمہء حق کے کہنے میں بے باک تھے او رکسی کی پر وانہ کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ قطب صاحبؒ کے مزار پر حاضر ہوئے تو دیکھا کہ مزار شریف کے قریب چھتوں پر قناتیں لگی ہوئی ہیں اور ان کی رسیاں مزار مبارک کی طرف ہیں پوچھا کہ یہ قناتیں کس کی ہیں کہا گیا کہ بادشاہ دہلی کے محلات کے واسطے ہیں ۔ حافظ صاحبؒ نے غصہ ہو کر فرمایا ، یہ انتہائی بے ادبی ہے ۔ ان رسیوں کو کاٹ دو تاکہ یہ قناتیں گر پڑیں ۔ (۵۱)
نواب بہاول خاں اورحافظ صاحبؒ:۔
نواب بہاول خاں ثانی، خواجہ تونسویؒ کا مرید تھا ۔ حافظ صاحبؒ سے ملاقات کی تمنا رکھتا تھا ، مگر کبھی اس کا موقع نہ ملتا تھا۔ ایک دن شاہ محمد سلیمان تونسویؒ کی خدمت میں اپنی اس تمنا کا اظہار کیا۔ شیخ نے حافظ صاحبؒ کو طلب کیا۔ حافظ صاحبؒ حاضر ہوئے تو سلام عرض کرنے کے بعد شیخ کے روبرو بیٹھ گئے ۔ خان موصوف کی طرف مطلق توجہ نہ کی ۔ تھوڑی دیر کے بعد پیر و مرشد کی اجازت سے اپنے مقام واپس آگئے۔ (۵۲)
’’مناقب المحبوبین ‘‘میں لکھا ہے کہ حافظ صاحبؒ ایک مرتبہ احمد پور تشریف لے گئے تھے۔ نواب بہاول خاں کو جب تشریف آوری کا علم ہو ا تو ملاقات کا ارادہ کیا۔ آپ کو خبر ہو ئی تو فوراً تونسہ شریف کے لیے روانہ ہوگئے۔ (۵۳)
انگریزوںسے تنفر:۔
حافظ صاحبؒ کے زمانہ میں انگریزوں کا اقتدار ہند وستان میں پوری طرح سے قائم ہو گیا تھا۔ انگریزی معاشرت کے اثرات ظاہر ہورہے تھے۔ حافظ صاحبؒ کو انگریزی طور وطریقہ او رطرز معاشرت سے سخت نفرت تھی ۔ اگر کوئی انگریزی وضع اختیار کرتا تھا تو طبیعت پر گراں گزرتاتھا۔ بوٹ پہن کر کوئی شخص آتا تو ناخوش ہوتے اور فرماتے یہ نصاریٰ کی وضع ہے ۔(۵۴) مصنف ’’مناقب حافظیہ‘‘ کے چچا واجد علی خاں نے ایک کوٹھی بنائی اور حافظ صاحبؒ کو بر کت کے لیے مکان میں لائے ۔ حافظ صاحبؒ نے معائنہ کے بعد فرمایا کہ واجد علی خاں نے خو ب مکان بنایا ہے ، مگر مجھ کو پسند نہیں آیا کیونکہ اس میں دروازے انگریزی وضع کے ہیں ۔ (۵۵)ایک مرتبہ ایک صاحب کے نام کے ساتھ انگریزی لفظ سن کر اس قدر نا راـض ہو ئے کہ اس کا خط تک نہ پڑھا۔ (۵۶)
وحدتِ وجود:۔
وحدت وجود پر وہ عوام میں گفتگو کرنے کو برا سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے پوچھا کہ عوام جو وحد تِ وجود پر گفتگو کرتے ہیں ، اس کے متعلق کیا خیال ہے ۔ فرمایا، یہ الحا د و زند قہ ہے۔ (۵۷)
سماع :۔
سماع کے معاملے میں بہت احتیاط فرمایا کر تے تھے ، کہا کرتے تھے کہ زمان ، مکان ،اخوان (۵۸)کی شرطیں جب تک پور ی نہ ہو ں مجلس منعقد نہیں کرنی چاہیے ۔قوال ہمیشہ باشرع ہونا چاہیے(۵۹)
ہندوؤں کو عقیدت :۔
ہندوؤ ں کوبھی حضرت حافظ صاحبؒ سے بڑی عقید ت تھی ، مثنوی رومیؒ کے درس میں ہندو بھی شریک ہوتے تھے ۔ حیدرآباد کے راجہ چندو لال کو آپ سے بے حد عقیدت تھی۔(۶۰) اکثر آپ کی خدمت میں حاضرہوتاتھا ۔ دہلی کا ایک کا ئستھ ہندوان کی خدمت میں حاضرہوکر اس قدر متاثر ہوا تھا کہ مع اہل وعیال مسلمان ہو گیا۔ (۶۱)شاہ صاحبؒ کاا خلاق بے حد ا چھا تھا۔ ہر ملنے والا ان سے مل کر خوش ہوتا تھا اور ان کی محبت کا نہ مٹنے والا نقش لے کر ان کی مجلس سے جاتاتھا۔
واجدعلی شاہ اورحافظ صاحبؒ:۔ واجدعلی شاہ کے ہنگامہ ہائے ناؤ نوش اور حکومت کے کاموں سے بے تعلقی کو دیکھ کر حافظ صاحبؒ کو سخت صدمہ ہوا ۔ انہوں نے متعد د بار واجد علی شاہ سے شکایت کی اور اس کے فرائض سے آگاہ کیا۔ جب تمام نصیحتیں صدابہ صحرا ثابت ہوئیں تو حافظ صاحبؒ لکھنوتشریف لائے اور واجدعلی شاہ سے کہلابھیجا کہ ہم جنگ کے واسطے آئے ہیں ۔ اگر تجھ کو زوراور بہادری کا دعویٰ ہو تو مقابلہ کر ۔ اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ تلواریں ہمراہ لاؤ ہم جنگ کریں گے مصنف ’’مناقب حافظیہ‘‘ کو بھی تلوار لانے کاحکم ہوا ۔ متفکر ہو کر کئی بار فرمایا:
’’میرے دل میں آتا ہے کہ اس رئیس سے تخت خالی کرادوں‘‘(۶۲)
ایک رات شاہ میناصاحبؒ کی درگاہ میں بیٹھے تھے ۔ فرمانے لگے ’’یہ تختے کا تختہ الٹے ‘‘ایک پیر مرداُن کے قریب بیٹھے تھے۔ باربار عرض کرتے تھے ۔ ایسا نہ فرمائیے آخر مسلمان ہے ۔ حافظ صاحبؒ اور زیادہ جوش میں آجاتے اور فرماتے ، اگر نصاریٰ کی عمل داری ہوتو اس حکومت سے بہتر ہے۔ (۶۳)
حافظ صاحبؒبہ حیثیت شاعر:۔
حضرت حافظ صاحبؒ کو شعر وسخن سے بھی دلچسپی تھی۔ غزلیں اور رباعیاں بہت اچھی کہتے تھے۔ مشتاقؔ تخلص تھا۔ ایک غزل ملاحظہ ہو
دلم بر بود جانا نے کہ آنی دلستاں دارد
شکر لب خندہ نمکینی خمار میکشاں دارد
چوگل رخ نرگسیں چشمے بر دیش سنبلی زلفے
لب نازک ترا زلا لئہ قدسرو رواں دارد
کہ از تمکین نمی پر سد زحال زار من دلبر
خدایا مہرباں سازش کہ دل سنگیں چناں دارد
ازیں نا مہرباں شوخی چہ آسایش دہد وستم
کہ باکم التفاتے ہازمن خاطر گراں دارد
بکیش دلبری شاید روا دارد دل آزاری
کہ ازمژگان زند پیکاں ازا بر وکماں دارد
متاع صبر از دلیا کند غارت بیک لمحہ
مگر در گوشہ وچشمے چنیں ہامرد ماں دارد
بیا مشتاقؔ زیں بگذر تو خاکپائے سلیمان شو
کہ ہر کس از جمال اوکمال بیکراں دارد
وصال :۔
حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو آخر عمر میں فالج کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔ رفتہ رفتہ مرض اس قدر بڑ ھ گیا کہ ہاتھ پاؤں بے کار ہوگئے ، عبادت میں بھی بہت دقت ہونے لگی تو فرمایا، جسم بھاڑے کاٹٹوتھا آخر ساتھ نہ دیا (۶۴)، ماہ ذی قعدہ (۱۲۶۶ھ )کو وصال فرمایا، کھیری میں سپرد خاک کیے گئے۔
خلفاء:۔
حـضرت حافظ صاحبؒ کے تین خلیفہ صاحب سلسلہ اور صاحب ارشاد ہوئے۔ (۱) مرزاسرداربیگ ؒ (۲) شاہ حبیب شاہؒ(۳) مولاناحسن الزماںؒ ، یہ تینوں بزرگ حیدرآباد میں رہے اور وہیں سلسلہ کی اشاعت اور تو سیع کاکام کیا مولاناحسن الزماں صاحبؒ جید عالم اور بڑے پایہ کے محدث تھے ۔ انہوں نے حضرت شاہ فخرالدین صاحبؒ کی مشہور کتا ب فخرالحسن کی ضخیم شرح عربی زبان میں ’’ القول المستحسن فی شرح فخر الحسن ‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ علاوہ ازیں انہوںنے علوم اہل بیت کے نام سے ایک کتاب چوبیس جلدوں میں تصنیف فرمائی تھی جس میں انہوںنے اہل سنّت کا اثبات ، روایات اہل بیت سے کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کا بندو بست نواب محبوب علی خاں نے کیا تھا ۔ لیکن صرف ایک جلد طبع ہو نے پائی تھی کہ نظام کا انتقال ہوگیا اور وہ کام نامکمل رہ گیا۔
(ماخوذ:۔انواراصفیاء ص۵۵۱تا۵۶۰، ادارہ تصنیف وتالیف شیخ غلام علی اینڈسنسز، لاہور، پاکستان ،۱۹۸۵ء)
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱)تذکرہ اولیائے دکن ، جلداول، ص۳۰۸
(۲)مناقب حافظیہ ، ص۹۳،۹۴
(۳)مناقب حافظیہ ص۹۳،۹۴
(۴)مناقب حافظیہ ص۹۳،۹۴
(۵)مناقب حافظیہ ص۹۳،۹۴
(۶)مناقب حافظیہ ص۹۹
(۷)مناقب حافظیہ ص۹۹
(۸)مناقب حافظیہ ص۱۲۱
(۹)مناقب حافظیہ ص۱۰۶
(۱۰)مناقب حافظیہ ص۱۰۶
(۱۱)مناقب حافظیہ ص۱۰۷
(۱۲)مناقب حافظیہ ص۱۰۷
(۱۳)مناقب حافظیہ ص۱۰۷
(۱۴)مناقب حافظیہ ص۱۵۳
(۱۵)مناقب حافظیہ ص۱۰۸
(۱۶)مناقب حافظیہ ص۱۳۱
(۱۷)مناقب حافظیہ ص۱۷۷
(۱۸)مناقب حافظیہ ص۲۰۴
(۱۹)مناقب حافظیہ ص۱۰۹
(۲۰)مناقب حافظیہ ص۱۲
(۲۱)مناقب حافظیہ ص۱۱۰
(۲۲)مناقب حافظیہ ص۱۱۲
(۲۳)مناقب حافظیہ ص۱۱۵
(۲۴)مناقب حافظیہ ص۱۰۶
(۲۵)مناقب حافظیہ ص۱۳۶
(۲۶)مناقب حافظیہ ص۱۴۸
(۲۷)مناقب حافظیہ ص۱۷۷
(۲۸)مناقب حافظیہ ص۲۱۲
(۲۹)مناقب حافظیہ ص۱۱۵
(۳۰)مناقب حافظیہ ص۱۱۵
(۳۱)مناقب حافظیہ ص۱۶۳
(۳۲)مناقب حافظیہ ص۲۱۹
(۳۳)مناقب حافظیہ ص۲۱۹
(۳۴)مناقب حافظیہ ص۲۱۹
(۳۵)مناقب المحبوبین ص۳۵۷
(۳۶)مناقب حافظیہ ص۱۱۵
(۳۷)مناقب حافظیہ ص۱۱۶
(۳۸مناقب حافظیہ ص۲۱۴
(۳۹)مناقب حافظیہ ص۲۵۶
(۴۰)مناقب حافظیہ ص۲۵۶
(۴۱)مناقب حافظیہ ص۱۱۶
(۴۲)مناقب حافظیہ ص۱۰۲
(۴۳)مناقب حافظیہ ص۱۰۲
(۴۴)مناقب حافظیہ ص۱۰۳
(۴۵)مناقب حافظیہ ص۱۰۳
(۴۶)مناقب حافظیہ ص۱۶۷
(۴۷)پیرملانی ص۵
(۴۸)مناقب حافظیہ ص۱۳۵
(۴۹)مناقب حافظیہ ص۱۳۵
(۵۰)مناقب حافظیہ ص۱۲۸
(۵۱)مناقب حافظیہ ص۱۳۵
(۵۲)مناقب حافظیہ ص۵۴۔۵۵
(۵۳)مناقب حافظیہ ص۱۳۷
(۵۴)مناقب حافظیہ ص۱۳۷
(۵۵)مناقب حافظیہ ص۱۳۷
(۵۶)مناقب حافظیہ ص۱۵۵
(۵۷)مناقب حافظیہ ص۱۵۵
(۵۸)مناقب حافظیہ ص۱۵۸
(۵۹)مناقب المحبوبین ص۳۵۷۔۳۵۸
(۶۰)مناقب المحبوبین ص۳۵۷۔۳۵۸
(۶۱)مناقب حافظیہ ص۲۶۰
(۶۲)مناقب حافظیہ ص۲۶۰
(۶۳)مناقب حافظیہ ص۲۹۱
٭٭٭