سوال: قرآن کریم نے نماز کے لیے وضو کا حکم دیا ہے اور وضو کے ارکان کا ذکر فرماتے ہوئے سر کا مسح کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ یہ مسح کیا ہے اور کیونکر کیا جاتا ہے؟
جواب: مسح چھونے یا ہاتھ پھیرنے کو کہتے ہیں اور اس کا طریقہ یہ ہے:
(( ان یغمس یدیہ فی الماء ثم یرفعھما فارغتین فیضعھما علی مقدم راسہ …. الی قفاہ ویعیدھا الی الموضع الذی بدء منہ )) ( غنیة الطالبین باب اول فصل ارکان و واجبات نماز صفحہ 7 ) کہ وضو کرنے والا اپنے دونوں ہاتھ پانی میں ڈبو کر خالی باہر نکالے ( یا ویسے ہاتھوں میں پانی لے کر پانی کو گرا دے ) پھر اپنے سر پر سامنے کی جانب ( ماتھے کے اوپر بالائی کنارے ) سے ہاتھوں کو پھیرتا ہوا پچھلی طرف گدی تک لے جائے پھر وہاں سے اسی طرح واپس لوٹاتا ہوا وہیں آ کر چھوڑ دے جہاں سے اس نے مسح شروع کیا تھا۔
سوال: آپ نے ذرا آگے چل کر وضو کے مسنونات کے ذکر میں گردن کا مسح بھی شمار کیا ہے۔ مگر یہاں جب آپ نے مسح کا طریقہ بتایا ہے تو گردن کے مسح کا ذکر نہیں کیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: ( بات دراصل یہ ہے کہ ) مسح کے لیے قرآن پاک میں صرف یہی وارد ہوا ہے کہ وامسحوا برؤسکم اپنے سروں پر مسح کرو۔ پس فرض امر صرف سر کا مسح ہی ہے۔ گردن کا مسح وضو کے فرائض میں داخل نہیں ہے۔