حيلہ شَرعی کا جواز قرآن و حديث اورفِقہِ حنفی کی مُعتَبر کُتُب ميں موجود ہے۔ چنانچہِ حضرتِ سيدنا ايوب عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی بيماری کے زمانے ميں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ايک بار خدمتِ سراپا عظمت ميں تاخير سے حاضِر ہوئيں تو آپ علیہ الصلٰوۃ السلام نے قسم کھائی کہ ”ميں تندرست ہو کر 100 کوڑے ماروں گا” صِحت ياب ہونے پر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہيں100 تِيليوں کی جھاڑو مارنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ چُنانچہِ قرآنِ پاک ميں ہے :
وَ خُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبۡ بِّہٖ وَلَا تَحْنَثْ ؕ
ترجَمہ کنزالايمان: اور فرمايا کہ اپنے ہاتھ ميں ايک جھاڑو لے کر اِس سے مار دے اور قسم نہ توڑ۔(پ ۲۳،صۤ: ۴۴)
”فتاوٰی عالمگيری ” ميں حِيلوں کاايک مُستقِل باب ہے جس کا نام ”کتابُ الحِیَل” ہے چُنانچِہ ” عالمگيری کتابُ الحِیَل” ميں ہے،” جو حِيلہ کسی کا حق مارنے يا اس ميں شُبہ پيدا کرنے يا باطِل سے فَریب دينے کيلئے کيا جائے وہ مکروہ ہے اور جوحِيلہ اس لئے کيا جائے کہ آدَمی حرام سے بچ جائے يا حلال کو حاصِل کر لے وہ اچّھا ہے ۔ اس قسم کے حيلوں کے جائز ہونے کی دليل اللہ عَزَّوَجَلَّ کا یہ فر مان ہے :
وَ خُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبۡ بِّہٖ وَلَا تَحْنَثْ ؕ
ترجَمہ کنزالايمان : اور فرماياکہ اپنے ہاتھ ميں ايک جھاڑو لے کر اس سے مار دے اور قسم نہ توڑ۔ (پ ۲۳،صۤ: ۴۴)
(الفتاوٰی الھندیۃ ،کتاب الحیل ،ج۶،ص۳۹۰)