حضور شیخ الاسلام کی نعتیہ شاعری
ناوک حمزہ پوری
دارالادب حمزہ پور
حضرت شیخ الاسلام علامہ و مولانا سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی اختر ؔکچھوچھوی حضرت سید شاہ ابو المحامد محمد محدث اعظم ہند قدس سرہ العزیز نے کچھوچھے کے بارے میں فرمایا ہے ۔ ؎
’’ایں کچھوچھہ چہ عجب کوچہ جیلاں شدنی است‘‘
عجیب اتفاق ہے کہ بچپن ہی سے اس فقیر کے دل میں بھی کچھوچھے کی دینی اور روحانی عظمتوں کی وجہ سے اس کی بڑی قدر و عظمت قائم ہے بچپن ہی کے زمانے میں غالباً۱۹۴۰ء سے ۱۹۵۰ ء تک کچھوچھے کے جو بزرگ ہمارے علاقے( شیر گھاٹی) میں تشریف لاتے تھے تو والد محترم حضرت قوسؔ حمزہ پوری سے ملنے ضرور آ تے تھے۔ اس کے بعد یہ فقیر تلاش معاش کے سلسلے میں باہر نکل گیا۔ تاہم خط و کتابت کے ذریعہ پروفیسر وحید اشرف صاحب سے بڑے مخلصانہ مراسم قائم ہوئے۔ حسن اتفاق سے ایک بار حمزہ پور میں تھا تو حضرت جیلانی میاں صاحب نے میں بھی شرف ملاقات بخشا تھا۔
المختصر یہ کہ کچھوچھے کی دل میں بیٹھی ہوئی یہ عزت عظمت ہی تھی جس نے صحت کی اس خرابی و معذوری کے با وجود ’’باران رحمت‘‘ کے تعلق سے چند سطور لکھنے پر میں راضی ہوگیا۔
یہ کتابچہ در اصل نعتیہ مجموعہ ہے اور اس کے مصنف عالی جناب حضرت مولانا سید محمد مدنی المتخلص اخترؔؔ کچھوچھوی اپنی نگارشات کے
آئینے میں خاصی پر عظمت‘علمی و ادبی شخصیت معلوم ہوتے ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ وہ حضرت مولانا شاہ سید ابو المحامد محمد اشرفی الجیلانی کچھوچھوی محدث اعظم ہند قدس سرہ العزیز کے وارث و جانشین ہیں ۔ یوں علوم دینی کے شانہ بشانہ علوم شعرو ادب پر دسترس کامل بھی انہیں ورثے میں حاصل ہوئی ہے۔
اس خاکسار کو حضرت محدث اعظم قدس سرہ کے اردو و فارسی کلام کے دیکھنے کا شرف حاصل ہے اور سچ پوچھئے تو یہ انہیں کے نام نامی کا اثر تھا کہ میں ان کی رباعیات پر کچھ لکھنے کو تیار تھا لیکن میرے پاس جو مسود ات بھیجے گئے ان میں پانچ‘ سات رباعیوں کے سوا رباعیاں تھی ہی نہیں۔ چنانچہ میں اپنی معذوری کے سبب لکھنے سے دشت کش ہوگیا تھا لیکن بعد میںجناب فرحت علی صدیقی نے حضرت ِاختر ؔکچھوچھوی کے ’’باران رحمت ‘‘پر چند سطور لکھنے کا حکم فرمایا اور چوں کہ یہ مجموعہ نعت شریف کا تھا اسی لئے حصول برکت کی امید پراس کے لئے رضا مند ہوگیا۔
نعت ایک ایسا و سیع المعنی لفظ ہے کہ اس ناچیز کے خیال میںہر وہ ادب پارہ جس میں حضور کا ذکر ہو‘ مدح ہو‘ثنا ہو‘تعریف ہو‘سراپا کا بیان ہو‘شبیہ و شمائل کی تصویر کشی ہو‘عبادات و اخلاق کا بیان ہو‘فضائل و محاسن کا بیان ہو‘ حضور سے خطاب ہو‘عقیدت و محبت کا اظہار ہو الغرض ہر وہ ادبی کاوش جو اپنے قاری یا سامع کو آں حضرت کی طرف متوجہ کرے ‘قریب لائے وہ بلا شبہ’’ نعت ‘‘ہے۔
روایتاً ہوتا یہ چلا آرہا ہے کہ اب ہمارے ذہنوں میں نعت کا بصورت نظم ہونا ایک لازمی روایت بن گئی ہے ۔ چنانچہ اردو میں اب نعت شریف اس کلام ِمنظوم کو کہتے ہیں جو حضور پر نور محمد رسول اللہ کی شان میں ہو اور جس کا تاثر ہمیں نبی کریم کی ذات سے قریب لائے۔
الحمد للہ کہ حضرتِ اخترؔکچھوچھوی کی نعتیہ نظموں کا جائزہ لیتا ہوں تو انہیں محبت ِرسول کے جذبہ سے سرشار پاتا ہوں یہ مقام یہ مرتبہ ہر کس و ناکس کا نصیبہ کہاں۔
آداب اس قدر ملحوظ خاطر رکھا کہ بعد از خدا بزرگ توئی کا نکتہ ذہن میں محفوظ رکھا اور اس تہذیب و تطہیر کی محافظت کے لئے شروعات حمد ِالہی میں اس قطعے سے کی ہے اور اس شا ن سے کی ہے کہ نظم کا ربط آیت ِقرآنی سے ہم رشتہ ہے۔ ؎
ذرے ذرے سے نمایاں ہے مگر پنہاں ہے
میرے معبود! تیری پردہ نشینی ہے عجیب
دور اتنا کہ تخئیل کی رسائی ہے محال
اور قربت کا یہ عالم کہ رگ ِجاں سے قریب
ْؒحضرت ِاخترؔ کی اکثر نعتیں غزل کی ہیئت میں ہیں ۔اس خا کسار نے آ پ کی غز لیں بھی دیکھیں ہیں اور اب نعتوں کا مطالعہ بھی کررہا ہوں مجھے لگتا ہے کہ حضرت ِاخترؔ غزل کے بہترین شاعر ہیں ان کے کلام کی متغز لانہ کیفیات اشارہ کرتی ہیں کہ اگر وہ صرف غزل کے شاعر ہوتے تو بہترین غزل گو شاعر شمار ہوتے۔ چنانچہ آپ کی نعتوں میں بھی یہ متغزلانہ کیفیت اپنا حسن و جمال بکھیرنے لگتی ہے۔ حالاں کہ بنیادی نکتہ دونوں جگہ محبت کا ہے لیکن ظاہر ہے کہ غزل کے تقاضے اور ہوتے ہیں اور نعت محبت کے جذبہ سے سر شار ہونے کے با وجود پل صراط پر چلنے کی سی ہوشیاری اور تہذیب و تطہیر کی متقاضی ہوتی ہے اور یہ تہذیب و تطہیر بر قرار رکھنے کی بہر حال قابل ِتعریف کوشش جناب ِاخترؔ نے کی ہے۔ اولین نعت کا مطلع ملاحظہ فرمائیے جو متغزلانہ کیفیات سے معمور ہے ۔
ساقیٔ کوثر مرا جب میر میخانہ بنا
چاند ‘سورج خم بنے ہر نجم پیمانہ بنا
مطلع نمبر دو دیکھئے۔ ؎
حسن فطرت کے ہر اک جلوے سے بیگانہ بنا
دل بڑا ہوشیار تھا اس در کا دیوانہ بنا
اور پھر اشعار پر اشعار پڑ ھتے جائیے آپ شاعر کے متغزلانہ بیان کی سر شاری میں ڈوبتے چلے جائیں گے۔ ؎
اس بہانے ہی سے جا پہنچوں لب اعجازتک
یا الہی خاک کرکے مجھ کو پیمانہ بنا
یا پھر یہ اشعار ؎
اپنے عقل و ہوش کھونے کا صلہ مل ہی گیا
میرا افسانہ سراپا ان کا افسانہ بنا
اللہ اللہ رفعت اشک غم ہجر نبی
جوں ہی ٹپکا آنکھ سے تسبیح کا دانہ بنا
کہاں تک نقل کروں پوری نعتیہ نظم بڑی مرصع اور شاعر کے کمال کا نمونہ ہے۔ چاہتا تھا کہ دوسری نعت کی طرف رجوع کروں لیکن وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ؎
زفرق یا ش ہر کجا کہ می بینم
کرشمہ دامنی ولی می کشو کہ جا ایں جا ئے
’’ہزار بار بشویم دہن ز مشک و گلاب‘‘ کی مماثلت نے دامن دل مطلع کی طرف کھینچ لیا
دھوکے اپنے نطق کو مدح نبی کے آب سے
اپنی ہر ہر بات کو اختر ؔ حکیمانہ بنا
شاعر نے مشک و گلاب پر مدح نبی کے آب ِکوثر کو ترجیح دے کر اپنے ایمان کے کمال کا اظہار کس نفاست اور خوب صورتی سے کیا ہے۔
دوسری نعت کا بھی ہر شعر مر صع ہے ؎
خدائے برتر و بالا ہمیں پتا کیا ہے
ترے حبیب مکرم کا مرتبا کیا ہے
ورفعنا لک ذکرک کی طرف رجوع کرنے کو کہتا ہے تو بعد کے ہر ہرشعر اپنی تاریخی‘تمثیلی‘خوبیوں کی وجہ سے دامن کش ِدل ہوتے ہیں ۔ یہ تلمیحی انداز دیکھئے ؎
کوئی بلال سے پوچھے خبیب سے سمجھے
خمار الفت محبوبِ کبریا کیا ہے
اب جب تک کوئی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے عشق نبی کی کیفیت سے آگاہ نہ ہو یا پھر حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعہ کا علم نہ رکھتا ہو اس شعر سے کیا لطف اٹھائے گا۔! الغرض یہ کہ ہر ہر نعت شریف بلکہ ہر نعت شریف کا ہر ہر شعر شاعر کے وقوف‘ بصیرت‘ علمی لیاقت‘ تاریخی واقفیت اور تمثیلی نیز تلمیحی ہنر مندی کا خزانہ ہے۔
یہ خاکسار مجموعہ کی تفسیر بیان کرنے نہیں بیٹھا ہے تعارف کرا رہا ہے اورمثل مشہور ہے کہ ہانڈی کا صرف ایک چاول ٹٹول کر پوری ہانڈی کی کیفیت معلوم ہو جاتی ہے۔ یوں ہی میں نے اشارات کردئیے ہیں ۔ امید ہے عاشقان رسول اور صاحبان ِ دل اس مجموعے کے مطالعے سے لطف اندوز ہوں۔ ایمان تازہ کریں گے اور شاعر کے کمال فن کے معترف و مداح ہوں گے۔
اپنی بات یہیں ختم کر دیتا لیکن جی چاہتا ہے کہ دو ایک اشارے اور کردوں۔ کسی تجربے کار ناقد کا یہ قول مجھے بہت پسند ہے کہ کسی مجموعہ شعری کے مرتب کو یا تو شاعر سے زیادہ صاحب نظر ہونا چاہئے اور یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم اسی مرتبے کا ضرور ہونا چاہیے ۔ اس مجموعے کے ساتھ یہ نہیں ہو سکا ہے ۔ حضرت ِاختر ؔما شا ء اللہ معقولات و منقولات پر کامل دست ِرس رکھنے والے عالم ِدین بھی ہیں۔ ہر چند شاعری ورثے میں ہاتھ آئی لیکن جس طرح رمل‘مجتث‘ مضارع‘ تعدارک‘ متقارب‘ہزج‘حفیف وغیرہ کے سالم و مزاحف اوزان شاعر نے استعمال کئے ہیں ان سے ان کے فنی دسترس کے کمال کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اسی طرح زبان تو آپ کے گھر کی باندی ہے ۔ لیکن بیشتر مقامات پر مرتب نے احتیاط سے کام نہیں لیا ہے۔ لازم ہے کہ حضرت ِاخترؔ اس مجموعے کو اپنی دیکھ ریکھ میں مرتب کرا کے شائع فرمائیں اور لسانی و فنی ہر دو قسم کہ اسقام سے اسے پاک کریں ۔ بینائی میری معذ وری کی حد تک کم ز ور ہے پھر بھی جہاں سمجھ گیا میں نے اشارے کر دیئے ہیں حالاں کہ حضرت کے مرتبے کے سامنے یہ بھی سوء ادب ہے تاہم یہ میرا فریضہ بھی تھا۔ میں اس مجموعہ کی اشاعت پر حضرت ِاخترؔ کو دلی مبار کباد دیتا ہوں۔ و باللہ التوفیق