ایک غلط فہمی کا ازالہ

    آیت مذکورہ بالا کے بارے میں بعض ان ملحدین کا جو معجزہ شق القمر کے منکر ہیں یہ خیال ہے کہ اس شق القمر سے مراد خالص قیامت کے دن چاند کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا ہے جب کہ آسمان پھٹ جائے گا اور چاند ستارے جھڑ کر بکھر جائیں گے۔
مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ ان ملحدوں کی یہ بکواس سراسر لغو اور بالکل ہی بے سروپا خرافات والی بات ہے کیونکہ اولاً تو اس صورت میں بلا کسی قرینہ کے انشق (چاندپھٹ گیا) ماضی کے صیغہ کوینشق(چاندپھٹ جائے گا) مستقبل کے معنی میں لینا پڑے گا جو بالکل ہی بلا ضرورت ہے۔ دوسرے یہ کہ چاند شق ہونے کا ذکر کرنے کے بعد یہ فرمایا گیا ہے کہ
وَ اِنۡ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوۡا وَ یَقُوۡلُوۡا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ﴿۲﴾ (1)
یعنی شق القمر کی عظیم الشان نشانی کو دیکھ کر کفار نے یہ کہا کہ یہ جادو ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔
    ظاہر ہے کہ جب کفار مکہ نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تو اس کو جادو کہا ورنہ کھلی ہوئی بات ہے کہ قیامت کے دن جب آسمان پھٹ جائے گا اورچاند ستارے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر جھڑ جائیں گے اور تمام انسان مرجائیں گے تو اس وقت اس کو جادو کہنے والا بھلا کون ہوگا؟ اس لیے بلاشبہ یقینا اس آیت کے یہی معنی متعین ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند پھٹ گیا اور اس معجزہ کو دیکھ کر کفار نے اس کو جادو کا کرتب بتایا۔
Exit mobile version