ایک انصاری عورت جس کا شوہر، باپ، بھائی سبھی اس جنگ میں شہید ہو چکے تھے تینوں کی شہادت کی خبر باری باری سے لوگوں نے اُسے دی مگر وہ ہر بار یہی پوچھتی رہی یہ بتاؤ کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کیسے ہیں؟ جب لوگوں نے اس کو بتایا کہ الحمدﷲ وہ زندہ اور سلامت ہیں تو بے اختیار اس کی زبان سے اس شعر کا مضمون نکل پڑا کہ ؎
تسلی ہے پناہ بے کساں زندہ سلامت ہے
کوئی پروا نہیں سارا جہاں زندہ سلامت ہے
اللہ اکبر!اس شیردل عورت کے صبروایثارکاکیاکہنا؟شوہر،باپ،بھائی، تینوں کے قتل سے دل پرصدمات کے تین تین پہاڑگرپڑے ہیں مگرپھربھی زبان حال سے اس کایہی نعرہ ہے کہ ؎
میں بھی اور باپ بھی، شوہر بھی، برادر بھی فدا
اے شہ دیں! ترے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم(2)
(طبری ص۱۴۲۵)
اس جنگ میں ستر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جامِ شہادت نوش فرمایا جن میں چار مہاجر اور چھیاسٹھ انصار تھے۔ تیس کی تعداد میں کفار بھی نہایت ذلت کے ساتھ قتل ہوئے۔(1)(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۱۳۳)
مگر مسلمانوں کی مفلسی کا یہ عالم تھا کہ ان شہداء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کفن کے لئے کپڑا بھی نہیں تھا۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا یہ حال تھا کہ بوقت شہادت ان کے بدن پر صرف ایک اتنی بڑی کملی تھی کہ ان کی لاش کو قبر میں لٹانے کے بعد اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا تھا تو پاؤں کھل جاتے تھے اور اگر پاؤں کوچھپایا جاتا تھا تو سر کھل جاتا تھا بالآخر سر چھپا دیا گیا اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دی گئی۔ شہداء کرام خون میں لتھڑے ہوئے دو دو شہید ایک ایک قبر میں دفن کئے گئے۔ جس کو قرآن زیادہ یاد ہوتا اس کو آگے رکھتے۔(2)
(بخاری باب اذالم یوجدالاثواب واحدج۱ ص۱۷۰وبخاری ج۲ص۵۸۴باب الذین استجابوا)