اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نظرِرَحْمت

اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نظرِرَحْمت 

نبیِّ رَحمت ، شفیعِ اُمَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ رَحمت ہے : بے شک جو مجھ پر دُرُود پڑھے گا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاس کی طرف نظرِرَحمت فرمائے گا اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ جس کی طرف نظرِرَحمت سے دیکھے گا اسے کبھی عذاب میں  مبتلا  نہیں   فرمائے گا ۔ (افضل الصلوۃ،ص ۱۹۷) 
سرور رہتاہے کیف دَوام رہتا ہے لبوں  پہ میرے دُرُود وسلام رہتاہے
بری ہیں  نارجہنم سے وہ خدا کی قسم ! کہ جن کو ذِکر محمد سے کام رہتا ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُ حَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے جو شخص نبیِّ کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر دُرُودِپاک پڑھتا ہے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس خُوش نصیب پر رَحمت کی نظر فرماتا ہے اور اسے عذاب سے محفوظ رکھتاہے لہٰذا ہمیں  بھی حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ  وَالسَّلام پر کثرت سے دُرُود وسلام پڑھتے رہنا چاہیے کہ اس کی بَرَکت سے ہمیں  بے شُمار فوائد حاصل ہوتے ہیں  ۔ جیساکہ
حضرت سیِّدُنا اِبنِ عربی عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی ارشاد فرماتے ہیں  : ’’حضور نبی ٔرحمت ، شفیعِ اُمَّتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُودِ پاک پڑھنے کا فائدہ

 خودپڑھنے والے کوہوتا ہے کیونکہ یہ بات اچھے عقیدے ، خالص نِیَّت ، اظہارِ مَحَبَّت ، ہمیشہ فرمانبردار رہنے اور سرکارصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے واسطۂ مُبارکہ کو محترم جاننے پر رَہنمائی کرتی ہے ۔‘‘ (المواہب اللدنیۃ، المقصدالسابع، الفصل الثانی فی حکم الصلاۃ علیہ والتسلیم…الخ،۲/۵۰۶)

یادرکھئے! جب بھی حُضُور جانِ عالمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ذِکرِ خیر سنیں  یا پڑھیں  تو دُرُود وسلام اکٹھے پڑھنا چاہئے کہ اس سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ارشاد’’ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاصَلُّوْاعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْاتَسْلِیْمًا(ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو ان پر دُرُود اور خُوب سلام بھیجو)‘‘ پر عمل بھی ہوجائے گا اور دُرُودِپاک کی بَرَکات کے ساتھ ساتھ سلام بھیجنے کے فَوائد و ثمرات بھی حاصل ہونگے۔ صرف دُرُود یاصرف سلام پر اِکتفا  نہیں   کرنا چاہیے کہ ایساکرنا مکروہ ہے ۔ 
علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ السَّلام اس بات کی صراحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں  : ’’دُرُود و سلام کو ترک کرنا یا ان میں  سے کسی ایک پر اکتفا کرنا مکروہ ہے۔ ‘‘بعض کے نزدیک یہاں  مکروہ سے مُراد خلافِ اَولیٰ (یعنی وہ عمل جس کا نہ کرنا بہتر) ہے جو کہ مکروہ  نہیں   ۔ کیونکہ دُرُود وسلام پڑھنا باعث ِاجر ہے اور دونوں  کے ترک کرنے یاکسی ایک کے ترک کرنے سے حاصل ہونے والا اَجرو ثواب  نہیں   ملتا اور یہ اَوْلیٰ و اَفضل شئے کا ترک ہے ۔ لہٰذا ہمیں  اِختلاف سے بچتے ہوئے دُرُود اور سلام دونوں  ہی

 پڑھ لینے چاہئیں  ۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جب بھی حُضُورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُود وسلام پڑھنے کی سَعادت نصیب ہو تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلامپر دُرُود بھیجنے کے ضمن میں  آپ کی آل واَصحاب پر بھی دُرُودِ پاک پڑھ لینا چاہیے کہ غیرنبی پربہ تبعیت دُرُودپڑھنا بالاجماع (یعنی بالاتفاق ) جائز ہے ۔ اس بارے میں  دارالافتاء اَہلسُنَّت کا فتویٰ مُلاحَظہ ہو ۔ 

غیرِنبی پر دُرُود بھیجنے
سے  مُتعلِّق فَتْویٰ 

کیا فر ما تے ہیں  علماء دین ومُفْتِیانِ شرع متین اس مسئلہ میں  کہ غیر نبی پر سلام پڑھنا کیسا ہے ؟ 
سائل محمد شوکت قادری عطاری (سرجانی ٹاون)
بِسْمِ اﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْوَہَّابِ اللّٰہُمَّ ہِدَا یۃَالْحَقِّ والصواب
اَنبیاء عَلَیْھِمُ السَّلاماور فِرِشتوں  کے علاوہ کسی اور کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلاماِسْتِقْلالاً یا اِبتداء ًلکھنا یابولنا شرعاً دُرُست  نہیں   ہے ۔ عُلما نے اسے اَنبیاء کرام عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص لکھا ہے۔ چُنانچہ صَدْرُ الشَّریعہ بَدْرُ الطَّریقہ مُفْتی امجد علی اَعظمی عَلَیْہ رَحْمَۃُاللّٰہِ الْقَوِی  فرماتے ہیں  : ’’کسی کے

 نام کے ساتھعَلَیْہِ السَّلام کہنا ،یہ انبیا و ملائکہ عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص ہے۔ مثلاً موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام ، جبریلعَلَیْہِ السَّلام۔ نبی اور فِرِشتہ کے سوا کسی دوسرے کے نام کے ساتھ یوں  نہ کہا جائے۔‘‘ (بہار شریعت ،۳ / ص۴۶۵)

اَلبتَّہان کی تَبْعِیَّت میں  غیر نبی پر دُرُود وسلام بھیجا گیا ہو تو اس کے جائز ہونے میں  کوئی شک  نہیں   ۔ چُنانچہ فقیہ مِلَّت حضرت علاَّمہ مولانا مُفْتی جلالُ الدِّین اَمجدی عَلیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیلکھتے ہیں  : ’’یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے جمہور علماء کا مَذہَب یہ کہ اِسْتِقْلالاً واِبتداء ً   نہیں   جائز اور اِتباعا جائز ہے یعنی امام حسین عَلَیْہِ السَّلام کہنا جائز  نہیں   ہے اور امام حسین عَلٰی نَبِینا وَعَلَیْہِ السَّلام جائز ہے ۔ (فتاوی فیض الرسول ،۱/۲۶۷) 
حضرت علامہ مُحدِّث بدرُ الدِّین عینی رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں  : ’’وَقَالَ أبُوْ حَنِیْفَۃَ وَ اَصْحَابُہٗ وَمَالِکٌ وَالشَّافِعِیُّ وَالْاَکْثَرُوْنَ اِنَّہٗ لاَ یُصَلّٰی عَلٰی غَیْرِ اْلَانْبِیَاءِ عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلاَمُ اِسْتِقْلاَلاً،فَلاَ یُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ بَکر اَوْ عَلٰی اٰلِ عُمَرَ اَوْ غَیْرِھِمَا و لٰکِن یُّصَلّٰی عَلَیْہِمْ تَبْعاً ‘‘(عمدۃ القاری ،کتاب الزکاۃ ،باب صلاۃ الامام ودعائہ لصاحب الصدقۃ وقولہ،۶/۵۵۶)
مشہور شافعی بُزُرگ حضرت امام مُحی الدِّین نووی عَلیْہ رَحْمَۃُاللّٰہِ الْقَوِی  لکھتے ہیں  : ’’لاَ یُصَلّ عَلٰی غَیْرِ الْأَنْبِیَاءِ اِلَّا تَبْعاً لِاَنَّ الصَّلاَۃَ فِیْ لِسَانِ

 السَّلَفِ مَخْصُوْصَۃٌ بِالْاَنْبِیَاء صَلَواتُ اللّٰہ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِمْ کَمَا اَنَّ قَوْلَنَا ’’عَزَّوَجَلَّ‘‘ مَخْصُوْصٌ بِاللّٰہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی فَکَمَا لَایُقَالُ مُحَمَّدٌ عَزَّوَجَلَّ وَاِنْ کَان عَزِیْزاً جَلِیْلًا لَا یُقَالُ اَبُوْ بَکْرٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِنْ صَحَّ الْمَعْنٰی (اِلٰی اَنْ قَال) وَاتَّفَقُوْا عَلٰی اَنَّہٗ یَجُوْزُ اَنْ یُّجْعَلَ غَیْرَ اْلَانْبِیَائِ تَبْعَاً لَّھُمْ فِیْ ذٰلِکَ فَیُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیّٰتِہ وَاَتْبَاعِہٖ لِاَنَّ السَّلَفَ لَمْ یَمْنَعُوْا مِنْہُ وَقَدْ اُمِرْنَا بِہٖ فِی التَّشَہُّدِ وَغَیْرِہ قَالَ الشَّیْخُ اَبُوْمُحَمَّدِ الجُوَیْنِیْ مِنْ اَئِمَّۃِ اَصْحَابِنَا اَلسَّلَامُ فِیْ مَعْنَی الصَّلَاۃِ وَلَایُفْرَدُ بِہٖ غَیْرُ الْاَنْبِیَاءِ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَرَنَ بَیْنَہُمَا وَلَا یُفْرَدُ بِہٖ غَائِبٌ وَلَا یُقَالُ قَالَ فُلَانٌ عَلَیْہِ السَّلاَمُ‘‘(شرح مسلم للنووی، باب الدعاء لمن اتی بصدقتہ،۴/۱۸۵، الجزء السابع)

ان دونوں  عبارتوں  کا خُلاصہ یہ ہے کہ اِمام ابُو حَنیفہ، اُن کے اَصحاب، امام مالک، امام شافعی اور اکثر عُلماء کا قول یہ ہے کہ غَیرِ نبی پر اِسْتِقْلالاً صلاۃ  نہیں   پڑھی جائے گی، اَلبتَّہ تَبْعاً پڑھی جاسکتی ہے۔ یعنی یوں   نہیں   کہا جائے گا: اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍاَلبتَّہ یوں  کہا جاسکتا ہے: اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلی اَبِیْ بَکْرٍ۔ اس کے جَواز اور عَدمِ جَواز کی دلیل سلف صالحین کا عمل ہے، اور جَواز باِلتَّبع کی دلیل تَشَہُّد وغیرہ دیگر مَقامات بھی ہیں  جہاں  باِلتَّبع پڑھنے کا حکم ہے ۔ اِمامُ الْحَرَمَیْن حضرت امام جُوَیْنی رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی

 عَلَیْہِ نے فرمایا کہ سلام بھی اس حکم میں  صَلاۃ کے مَعْنی میں  ہے۔

سَیِّدِی اَعلیٰ حضرت مُجدِّدِدین ومِلَّت شاہ اِمام احمد رضاخان عَلَیْہ رَحْمَۃُ الرَّحمٰن ارشاد فرماتے ہیں  : صَلوۃ وسَلام باِلاِسْتِقْلَال اَنبیاء و مَلائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السّلام کے سوا کسی کے لئے روا نہیں   ،ہاں  بہ تَبْعیَّت جائز جیسے اَللّٰھُمَّ صَلّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنَامُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنا مُحَمَّدٍاور صحابۂ کرام  رَضِیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنْہُم کے لئے رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کہا جائے ، اَولیاء وعُلماء کو رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْھِمْ  یا قُدِّسَتْ اَسْرَارُھُمْ اور اگر رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْھُمْ کہے جب بھی کوئی مضائقہ  نہیں   ۔ (فتاوی رضویہ،۲۳/۳۹۰ )
وَاللّٰہ اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہٗ  عَزَّوَجَلَّ وَ صَلّی اللّٰہ تَعالٰی عَلَیْہ واٰلہ وَاَصْحابِہ وَبارَک وسلّم 
الجواب صحیح 
 عبدہ المذنب ابو الحسن فضیل رضا العطاری عفا عنہ الباری
کتبــــــــــــــــــــــــــہ      
محمد حسان رضا العطاری المدنی
20محرم الحرام 1432؁ھ27دسمبر 2010؁ء
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دُرُود شریف پڑھنا ایک عَظِیْم عبادت ہے۔ بُزُرگانِ دین نے اس کو پڑھنے کی جوحکمتیں  بیان فرمائی ہیں  اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں  کے مددگارصلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جُملہ مخلوقات میں  سب سے زِیادہ کریم ورَحیم ، شفیق وعَظِیْم ہیں  آپ کے مومنوں  پر سب سے زِیادہ اِحسانات ہیں  اس لیے مُحسنِ اَعْظَم کے اِحسان کے شُکریہ میں  ہم پر دُرُود پڑھنا مُقرَّر کیا گیا ہے ۔ اس لیے ہمیں  بھی چاہیے کہ بکثرت دُرُود پاک پڑھا کریں  اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اس کی بَرَکت سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت وسَلامتی ہمارا مُقدَّر بنے گی ۔ جیسا کہ

رَبّ عزَّ وجلَّ کا سلام

سرکارِ دو عالم،نُورِ مجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ معظم ہے : ’’جِبرئیل (عَلَیْہِ السَّلام ) نے مجھ سے عرض کی کہ رَبّ تعالیٰ فرماتا ہے : اے مـحـمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ! کیا تم اِس بات پر راضی  نہیں   کہ تمہارا اُمَّتی تم پر ایک بار دُرُود بھیجے،میں  اُس پر دس رَحمتیں   نازل کروں گا اور آپ کی اُمَّت میں  سے جو کوئی ایک سلام بھیجے، میں  اُس پر دس سلام بھیجوں  گا۔ ‘‘(مشکاۃ،کتاب الصلاۃ ، باب الصلاۃ علی النبی وفضلہا،۱/۱۸۹،حدیث:۹۲۸) 
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان 

فرماتے ہیں  : ’’رَبّ (عَزَّوَجَلَّ) کے سلام بھیجنے سے مُرادیا تو بذرِیعۂ مَلائکہ اسے سلام کہلوانا ہے یا آفتوں  اور مُصیبتوں  سے سلامت رکھنا ۔ ‘‘ (مراۃ ، ۲/۱۰۲)

اللّٰہتعالیٰ کا اپنے بندوں  پر سلام بھیجنا دیگر احادیثِ مُبارکہ سے بھی ثابت ہے ، جیسا کہ 
حضرت سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ الْمُرْسَلین ، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں  حضرت جبرئیل امین عَلَیْہ السَّلام عرض گزار ہوئے :’’یارسُولَ اللّٰہ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ! یہ خدیجہ ( رَضِی اللّٰہ تَعالٰی عَنْہا) ہیں  جو ایک برتن لے کر آرہی ہیں  جس میں  سالن اور کھانے پینے کی چیزیں  ہیں  ۔ جب یہ آپ کے پاس آجائیں  تو اِ نہیں   اُن کے رَبّعَزَّوَجَلَّکا اور میرا سلام کہئے ۔‘‘ (بخاری ،کتاب مناقب الانصار، باب تزویج النبی خدیجۃ وفضلہا،۲/۵۶۵، حدیث :۳۸۲۰)
حضرتِ سیِّدُنا ابوہریر ہ اور حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللّٰہ بن عبا س رَضیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنْہُم سے مروی ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمالصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا فرمانِ جَنَّت نشان ہے: ’’جب شب ِ قدر آتی ہے تو سِدْ رۃُالمنتہیٰ میں  رہنے والے فِرِشتے اپنے ساتھ چارجھنڈ ے لے کر اُترتے ہیں  ۔ حضرت  جبرائیل (عَلَیْہِ السَّلام) بھی ان کے سا تھ ہوتے ہیں  ۔ ان میں  سے ایک جھنڈا میرے دَفن

 کی جگہ پر، ایک طُو رِ سینا پر، ایک مسجد ِ حرام پر اور ایک بیتُ المقدَّس پر نصب کرتے ہیں  ، پھر وہ ہر مومن اور مومنہ کے گھر داخل ہو کر ا نہیں   کہتے ہیں  : ’’اے مومن مرد اور عورت! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں  سلام بھیجتا ہے ۔ ‘‘(تفسیرقرطبی،پ۳۰، القدر،تحت الآیۃ:۵،۱۰/۹۷)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی رَحمت اور اس کی سَلامتی پانے کے لئے دُرُودِ پاک ایک بہترین وَظِیْفہ ہے اس کی بَرَکتیں  دُنیا میں  تو حاصل ہوتی رہتی ہیں  مرنے کے بعد بھی یہ ہمارے لئے ذَرِیعہ نَجات بن سکتا ہے ، جیسا کہ 

کثرت دُرُود نے ہلاکت سے بچالیا

حضرت سیِّدُناشیخ حسین بن احمدکَوَّاز بِسطامی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے فرمایا: میں  نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّسے یہ دُعا کی :’’یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! میں  خَواب میں  ابُو صالح مُؤذِّن کو دیکھنا چاہتا ہوں  ۔ ‘‘چُنانچہ میری دُعا قبول ہوئی اور میں  نے خَواب میں  انھیں  اچھی حالت میں  دیکھ کر پوچھا :’’اے ابو صالح ! مجھے اپنے یہاں  کے حالات کی خبر دیجئے ۔‘‘ تو فرمایا :’’اے ابُو حسن! اگرسرکارِ مدینہ صلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ گرامی پر دُرُود پاک کی کثرت نہ کی ہوتی تو میں  ہلاک ہوگیا ہوتا۔‘‘(152رحمت بھری حکایات)

مشکلیں  ان کی حل ہوئیں  قسمتیں  ان کی کھل گئیں

ورد جنہوں  نے کرلیا صلّ علیٰ محمد
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اے ہمارے پیارے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! ہمیں  حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر کثرت سے دُرُودِپاک پڑھنے کی توفیق عطا فرما اوراسے ہمارے لئے نَجات کا ضامن بنا ۔ 
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭…٭…٭…٭
Exit mobile version