مصیبتوں اور جسمانی و روحانی تکلیفوں پر اپنے نفس کو اسطرح قابو میں رکھنا کہ نہ زبان سے کوئی برالفظ نکلے نہ گھبرا گھبرا کر اور پریشان حال ہو کر ادھر ادھر بھٹکتاا ور بھاگتا پھرے بلکہ بڑی سے بڑی آفتوں اور مصیبتوں کے سامنے عزم و استقلال کے ساتھ جم کر ڈٹے رہنا۔ اس کا نام صبر ہے صبر کا کتنا بڑا ثواب اور اجر ہے۔ اس کو بچہ بچہ جانتا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے کہ۔
اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۵۳﴾
”یعنی صبر کرنے والے کے ساتھ اﷲتعالیٰ کی مدد ہوا کرتی ہے۔” (پ1،البقرۃ:153)
اور خداوند کریم نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے یہ ارشاد فرمایا کہ۔
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ
یعنی اے محبوب! آپ اسی طرح صبر کریں جس طرح تمام ہمت والے رسولوں نے صبر کیا ہے۔(پ26،الاحقاف:35)
اس دنیا میں رنج و راحت اور غم و خوشی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ہر شخص کو اس دنیاوی زندگی میں تکلیف اور آرام دونوں سے پالا پڑنا ضروری ہے اس لیے ہر انسان پر لازم ہے کہ کوئی نعمت و راحت ملے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرے اور کوئی تکلیف و رنج پہنچے تو اس پر صبر کرے۔ غرض صبر کی عادت ایک نہایت ہی بہترین عادت ہے اور مثل مشہور ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوا کرتا ہے۔ اس لیے ہر مرد وعورت کو چاہیے کہ صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑے۔