یاد رکھوکہ میاں بیوی کا رشتہ ایک ایسا مضبوط تعلق ہے کہ ساری عمر اسی بندھن میں رہ کر زندگی بسر کرنی ہے۔ اگر میاں بیوی میں پورا پورا اتحاد اور ملاپ رہا تو اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ اور اگر خدا نہ کرے میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا اور جھگڑے تکرار کی نوبت آگئی تو اس سے بڑھ کرکوئی مصیبت نہیں کہ میاں بیوی دونوں کی زندگی جہنم کا نمونہ بن جاتی ہے اور دونوں عمر بھر گھٹن اور جلن کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔
اس زمانے میں میاں بیوی کے جھگڑوں کا فساد اس قدر زیادہ پھیل گیا ہے کہ ہزاروں مرد اور ہزاروں عورتیں اس بلا میں گرفتار ہیں اور مسلمانوں کے ہزاروں گھر اس اختلاف کی آگ میں جل رہے ہیں اور میاں بیوی دونوں اپنی زندگی سے بیزار ہو کر دن رات موت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔ اس لئے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر چندایسی نصیحتیں لکھ دیں کہ اگرمرد وعورت ان پر عمل کرنے لگیں تو اﷲتعالیٰ سے امید ہے کہ میاں بیوی کے جھگڑوں سے مسلم معاشرہ پاک ہو جائے گا اور مسلمانوں کا ہر گھر امن و سکون اور آرام و راحت کی جنت بن جائے گا۔
(۱)ہر عورت شوہر کے گھر میں قدم رکھتے ہی اپنے اوپر یہ لازم کرلے وہ ہر وقت اور ہر حال میں اپنے شوہر کا دل اپنے ہاتھ میں لئے رہے اور اس کے اشاروں پر چلتی رہے اگر شوہر حکم دے کہ دن بھر دھوپ میں کھڑی رہو یا رات بھر جاگتی ہوئی مجھے پنکھا جھلتی رہو تو عورت کے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی اسی میں ہے کہ تھوڑی تکلیف اٹھا کر اور صبر کر کے اس حکم پر بھی عمل کرے اور کسی وقت اور کسی حال میں بھی شوہر کے حکم کی نافرمانی نہ کرے۔
(۲)ہر عورت کو چاہے کہ وہ اپنے شوہر کے مزاج کو پہچان لے اور بغور دیکھتی رہے کہ اس
کے شوہر کو کیا کیا چیزیں اور کون کون سی باتیں ناپسند ہیں اور وہ کن کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور کون کون سی باتوں سے ناراض ہوتا ہے اٹھنے بیٹھنے’ سونے جاگنے’ پہننے اوڑھنے اور بات چیت میں اس کی عادت اور اس کا ذوق کیا اور کیسا ہے؟ خوب اچھی طرح شوہر کا مزاج پہچان لینے کے بعد عورت کو لازم ہے کہ وہ ہر کام شوہر کے مزاج کے مطابق کرے ہر گز ہر گز شوہر کے مزاج کے خلاف نہ کوئی بات کرے نہ کوئی کام۔
(۳)عورت کو لازم ہے کہ شوہر کوکبھی جلی کٹی باتیں نہ سنائے نہ کبھی اس کے سامنے غصہ میں چلا چلا کر بولے نہ اس کی باتوں کا کڑوا تیکھا جواب دے نہ کبھی اس کو طعنہ مارے نہ کوسنے دے نہ اس کی لائی ہوئی چیزوں میں عیب نکالے نہ شوہر کے مکان و سامان وغیرہ کو حقیر بتائے نہ شوہر کے ماں باپ یا اس کے خاندان یا اس کی شکل و صورت کے بارے میں کوئی ایسی بات کہے جس سے شوہر کے دل کو ٹھیس لگے اور خواہ مخواہ اس کو سن کر برا لگے اس قسم کی باتوں سے شوہر کا دل دکھ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ شوہر کو بیوی سے نفرت ہونے لگتی ہے جس کا انجام جھگڑے لڑائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا یہاں تک کہ میاں بیوی میں زبردست بگاڑ ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا توطلاق کی نوبت آجاتی ہے یا بیوی اپنے میکے میں بیٹھ رہنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور اپنی بھاوجوں کے طعنے سن سن کر کوفت اور گھٹن کی بھٹی میں جلتی رہتی ہے اور میکے اور سسرال والوں کے دونوں خاندانوں میں بھی اسی طرح اختلاف کی آگ بھڑک اٹھتی ہے کہ کبھی کورٹ کچہری کی نوبت آجاتی ہے اور کبھی مار پیٹ ہو کر مقدمات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور میاں بیوی کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اور دونوں خاندان لڑ بھڑ کر تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔
(۴)عورت کو چاہے کہ شوہر کی آمدنی کی حیثیت سے زیادہ خرچ نہ مانگے بلکہ جو کچھ ملے
اس پر صبر و شکر کے ساتھ اپنا گھر سمجھ کر ہنسی خوشی کے ساتھ زندگی بسر کرے اگر کوئی زیور یا کپڑا یا سامان پسند آجائے اور شوہر کی مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ اس کو لا سکے تو کبھی ہر گز ہر گز شوہر سے اس کی فرمائش نہ کرے اور اپنی پسند کی چیزیں نہ ملنے پر کبھی ہر گز کوئی شکوہ شکایت نہ کرے نہ غصہ سے منہ پھلائے نہ طعنہ مارے’ نہ افسوس ظاہر کرے۔ بلکہ بہترین طریقہ یہ ہے کہ عورت شوہر سے کسی چیز کی فرمائش ہی نہ کرے کیونکہ بار بار کی فرمائشوں سے عورت کا وزن شوہر کی نگاہ میں گھٹ جاتا ہے۔ ہاں اگر شوہر خود پوچھے کہ میں تمھارے لئے کیا لاؤں تو عورت کو چاہے کہ شوہر کی مالی حیثیت دیکھ کر اپنی پسند کی چیز طلب کرے اور جب شوہر چیز لائے تو وہ پسند آئے یا نہ آئے مگر عورت کو ہمیشہ یہی چاہے کہ وہ اس پر خوشی کا اظہار کرے۔ ایسا کرنے سے شوہر کا دل بڑھ جائے گا اور اس کا حوصلہ بلند ہو جائے گا اور اگر عورت نے شوہر کی لائی ہوئی چیز کو ٹھکرادیا اور اس میں عیب نکالا یا اس کو حقیر سمجھا تو اس سے شوہر کا دل ٹوٹ جائے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شوہرکے دل میں بیوی کی طرف سے نفرت پیدا ہوجائے گی اور آگے چل کر جھگڑے لڑائی کا بازار گرم ہو جائے گا اور میاں بیوی کی شادمانی و مسرت کی زندگی خاک میں مل جائے گی۔
(۵)عورت پر لا زم ہے کہ اپنے شوہر کی صورت وسیرت پر نہ طعنہ مارے نہ کبھی شوہر کی تحقیر اور اس کی ناشکری کرے اور ہر گز ہرگز کبھی اس قسم کی جلی کٹی بولیاں نہ بولے کہ ہائے اﷲ! میں کبھی اس گھر میں سکھی نہیں رہی۔ ہائے ہائے میری تو ساری عمر مصیبت ہی میں کٹی۔ اس اجڑے گھر میں آکر میں نے کیا دیکھا۔ میرے ماں باپ نے مجھے بھاڑ میں جھونک دیا کہ مجھے اس گھر میں بیاہ دیا مجھ نگوڑی کو اس گھر میں کبھی آرام نصیب نہیں ہوا۔ ہائے میں کس پھکڑّ اور دلدر سے بیاہی گئی۔ اس گھر میں تو ہمیشہ اُلّوہی بولتا رہا۔اس قسم کے طعنوں
اور کوسنوں سے شوہر کی دل شکنی یقینی طور پر ہوگی جو میاں بیوی کے نازک تعلقات کی گردن پر چُھری پھیر دینے کے برابر ہے ظاہر ہے کہ شوہر اس قسم کے طعنوں اور کوسنوں کو سن سن کر عورت سے بیزار ہو جائے گا اور محبت کی جگہ نفرت و عداوت کا ایک ایسا خطرناک طوفان اٹھ کھڑا ہو گا کہ میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات کی ناؤ ڈوب جائے گی جس پر تمام عمر پچھتانا پڑے گا مگر افسوس کہ عورتوں کی یہ عادت بلکہ فطرت بن گئی ہے کہ وہ شوہروں کو طعنے اور کوسنے دیتی ہی رہتی ہیں اور اپنی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کرتی رہتی ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ میں نے جہنم میں عورتوں کو بکثرت دیکھا۔ یہ سن کر صحابہ کرام علیھم الرضوان نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! اس کی کیا وجہ ہے کہ عورتیں بکثرت جہنم میں نظر آئیں۔ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ عورتوں میں دو بُری خصلتوں کی وجہ سے۔ ایک تو یہ کہ عورتیں دوسروں پر بہت زیادہ لعن طعن کرتی رہتی ہیں دوسری یہ کہ عورتیں اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی رہتی ہیں چنانچہ تم عمر بھر ان عورتوں کے ساتھ اچھے سے اچھا سلوک کرتے رہو۔ لیکن اگر کبھی ایک ذرا سی کمی تمہاری طرف سے دیکھ لیں گی تو یہی کہیں گی کہ میں نے کبھی تم سے کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔
(صحیح البخاری، کتاب الایمان ۔۲۱۔باب کفران العشیروکفر دون کفر، رقم ۲۹، ج۱،ص۲۳ وایضافی کتاب النکاح۸۹،باب کفران العشیر وھو الزوج الخ، رقم ۵۱۹۱، ج۳،ص۴۶۳)
(۶)بیوی کو لازم ہے کہ ہمیشہ اٹھتے بیٹھتے بات چیت میں ہر حالت میں شوہر کے سامنے با ادب رہے اور اس کے اعزازواکرام کا خیال رکھے۔ شوہر جب کبھی بھی باہر سے گھر میں آئے تو عورت کو چاہے کہ سب کام چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہو اور شوہر کی طرف متوجہ ہو جائے اس کی مزاج پرسی کرے اور فوراََ ہی اس کے آرام و راحت کا انتظام کرے اور اسکے ساتھ دلجوئی کی باتیں کرے اور ہرگز ہرگز ایسی کوئی بات نہ سنائے نہ کوئی ایسا سوال کرے جس سے شوہر کا دل دکھے۔
(۷)اگر شوہر کو عورت کی کسی بات پرغصہ آجائے تو عورت کو لازم ہے کہ اس وقت خاموش ہو جائے اور اس وقت ہر گز کوئی ایسی بات نہ بولے جس سے شوہر کا غصہ اور زیادہ بڑھ جائے اور اگر عورت کی طرف سے کوئی قصور ہو جائے اور شوہر غصہ میں بھر کر عورت کو برا بھلا کہہ دے اور ناراض ہو جائے تو عورت کو چاہے کہ خود روٹھ کر اور گال پھُلا کر نہ بیٹھ جائے بلکہ عورت کو لازم ہے کہ فوراََ ہی عاجزی اور خوشامد کرکے شوہر سے معافی مانگے اور ہاتھ جوڑ کر’ پاؤں پکڑ کر جس طرح وہ مانے اسے منالے۔ اگر عورت کا کوئی قصور نہ ہو بلکہ شوہر ہی کا قصور ہو جب بھی عورت کو تن کر اور منہ بگاڑ کر بیٹھ نہیں رہنا چاہے بلکہ شوہر کے سامنے عاجزی و انکساری ظاہر کرکے شوہر کو خوش کرلینا چاہے کیونکہ شوہر کا حق بہت بڑا ہے اس کا مرتبہ بہت بلند ہے اپنے شوہر سے معافی تلافی کرنے میں عورت کی کوئی ذلت نہیں ہے بلکہ یہ عورت کے لئے عزت اور فخر کی بات ہے کہ وہ معافی مانگ کر اپنے شوہر کو راضی کرلے۔
(۸)عورت کو چاہے کہ وہ اپنے شوہر سے اس کی آمدنی اور خرچ کا حساب نہ لیا کرے کیوں کہ شوہروں کے خرچ پر عورتوں کے روک ٹوک لگانے سے عموماً شوہر کو چِڑ پیدا ہو جاتی ہے اور شوہروں پر غیرت سوار ہو جاتی ہے کہ میری بیوی مجھ پر حکومت جتاتی ہے اور میری آمدنی خرچ کا مجھ سے حساب طلب کرتی ہے اس چِڑ کا انجام یہ ہو تا ہے کہ رفتہ رفتہ میاں بیوی کے دلوں میں اختلاف پیدا ہو جایا کرتا ہے اسی طرح عورت کو چاہے کہ اپنے شوہر کے کہیں آنے جانے پر روک ٹوک نہ کرے نہ شوہر کے چال چلن پر شبہ اور بدگمانی کرے کہ اس سے میاں بیوی کے تعلقات میں فساد و خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور خواہ مخواہ شوہر کے دل میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔
(۹) جب تک ساس اور خسر زندہ ہیں عورت کے لئے ضروری ہے کہ ان دونوں کی بھی تابعداری اور خدمت گزاری کرتی رہے اور جہاں تک ممکن ہو سکے ان دونوں کو راضی اور خوش رکھے۔ ورنہ یاد رکھو! کہ شوہر ان دونوں کا بیٹا ہے اگر ان دونوں نے اپنے بیٹے کو ڈانٹ ڈپٹ کر چانپ چڑھادی تو یقینا شوہر عورت سے ناراض ہوجائے گا اور میاں بیوی کے درمیان باہمی تعلقات تہس نہس ہو جائیں گے اسی طرح اپنے جیٹھوں’ دیوروں اور نندوں، بھاوجوں کے ساتھ بھی خوش اخلاقی برتے اور ان سبھوں کی دل جوئی میں لگی رہے اور کبھی ہرگز ہرگز ان میں سے کسی کو ناراض نہ کرے۔ورنہ دھیان رہے کہ ان لوگوں سے بگاڑ کا نتیجہ میاں بیوی کے تعلقات کی خرابی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ عورت کو سسرال میں ساس اور خسر سے الگ تھلگ رہنے کی ہرگز کبھی کوشش نہیں کرنی چاہے۔ بلکہ مل جل کر رہنے میں ہی بھلائی ہے۔ کیونکہ ساس اور خسر سے بگاڑ اور جھگڑے کی یہی جڑ ہے اور یہ خود سوچنے کی بات ہے کہ ماں باپ نے لڑکے کو پالا پوسا اور اس امید پر اس کی شادی کی کہ بڑھاپے میں ہم کو بیٹے اور اس کی دلہن سے سہارا اور آرام ملے گا لیکن دلہن نے گھر میں قدم رکھتے ہی اس بات کی کوشش شروع کردی کہ بیٹا اپنے ماں باپ سے الگ تھلگ ہو جائے تو تم خود ہی سوچو کہ دلہن کی اس حرکت سے ماں باپ کو کس قدر غصہ آئے گا اور کتنی جھنجھلاہٹ پیدا ہوگی اس لئے گھر میں طرح طرح کی بدگمانیاں اور قسم قسم کے فتنہ و فساد شروع ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ میاں بیوی کے دلوں میں پھوٹ پیدا ہو جاتی ہے اور جھگڑے تکرار کی نوبت آجاتی ہے اور پھر پورے گھر والوں کی زندگی تلخ اور تعلقات درہم برہم ہو جاتے ہیں لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ ساس اور خسر کی زندگی بھر ہرگز کبھی عورت کو الگ رہنے کا خیال بھی نہیں کرنا چاہے ہاں اگر ساس اور خسر خود ہی اپنی خوشی سے بیٹے کو اپنے سے الگ کردیں تو پھر الگ رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن الگ رہنے کی صورت میں بھی الفت و محبت اور میل جول رکھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ہر مشکل میں پورے کنبے کو ایک دوسرے کی امداد کا سہاراملتا رہے اور اتفاق و اتحاد کے ساتھ پورے کنبے کی زندگی جنت کا نمونہ بنی رہے۔
(۱۰)عورت کو اگر سسرال میں کوئی تکلیف ہو یا کوئی بات ناگوار گزرے تو عورت کو لازم ہے کہ ہر گز میکے میں آکر چغلی نہ کھائے کیونکہ سسرال کی چھوٹی چھوٹی سی باتوں کی شکایت میکے میں آکرماں باپ سے کرنی یہ بہت خراب اور بُری بات ہے سسرال والوں کو عورت کی اس حرکت سے بے حد تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ دونوں گھروں میں بگاڑ اور لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ عورت شوہر کی نظروں میں بھی قابل نفرت ہوجاتی ہے اور پھر میاں بیوی کی زندگی لڑائی جھگڑوں سے جہنم کا نمونہ بن جا تی ہے ۔
(۱۱)عورت کو چاہے کہ جہاں تک ہوسکے اپنے بدن اور کپڑوں کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھے۔ میلی کچیلی اور پھوہڑ نہ بن رہے بلکہ اپنے شوہر کی مرضی اور مزاج کے مطابق بناؤ سنگھار بھی کرتی رہے۔ کم سے کم ہاتھ پاؤں میں مہندی’ کنگھی چوٹی’ سرمے کاجل وغیرہ کا اہتمام کرتی رہے۔ بال بکھرے اور میلے کچیلے چڑیل بنی نہ پھرے کہ عورت کا پھوہڑپن عام طور پر شوہر کی نفرت کا باعث ہوا کرتا ہے خدا نہ کرے کہ شوہر عورت کے پھوہڑپن کی وجہ سے متنفر ہو جائے اور دوسری عورتوں کی طرف تاک جھانک شروع کردے تو پھرعورت کی زندگی تباہ وبرباد ہوجائے گی اور پھر اس کو عمر بھر رونے دھونے اور سر پیٹنے کے سوا کوئی چارہِ کار نہیں رہ جائے گا۔ (۱۲)عورت کے لئے یہ بات بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ جب تک شوہر اور ساس اور خسر وغیرہ نہ کھا پی لیں خود نہ کھائے بلکہ سب کو کھلا پلا کر خود سب سے اخیر میں کھائے۔ عورت کی اس ادا سے شوہر اور اس کے سب گھر والوں کے دل میں عورت کی قدرومنزلت اور محبت بڑھ جائے گی۔
(۱۳)عورت کو چاہے کہ سسرال میں جاکر اپنے میکے والوں کی بہت زیادہ تعریف اور بڑائی نہ بیان کرتی رہے کیونکہ اس سے سسرال والوں کو یہ خیال ہو سکتا ہے کہ ہماری بہو ہم لوگوں کو بے قدرسمجھتی ہے اورہمارے گھروالوں اور گھر کے ماحول کی توہین کرتی ہے اس لئے سسرال والے بھڑک کر بہو کی بے قدری اور اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
(۱۴)گھر کے اندر ساس’ نندیں یا جیٹھانی’ دیورانی یا کوئی دوسری عورتیں آپس میں چپکے چپکے باتیں کررہی ہوں تو عورت کو چاہے کہ ایسے وقت میں ان کے قریب نہ جائے اور نہ یہ جستجو کرے کہ وہ آپس میں کیا باتیں کررہی ہیں اور بلاوجہ یہ بدگمانی بھی نہ کرے کہ کچھ میرے ہی متعلق باتیں کر رہی ہوں گی کہ اس سے خواہ مخواہ دل میں ایک دوسرے کی طرف سے کینہ پیدا ہو جاتا ہے جو بہت بڑا گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے فساد ہونے کا سبب بن جایا کرتا ہے۔
(۱۵)عورت کو یہ بھی چاہے کہ سسرال میں اگر ساس یا نندوں کو کوئی کام کرتے دیکھے تو جھٹ پٹ اٹھ کر خود بھی کام کرنے لگے اس سے ساس نندوں کے دل میں یہ اثر پیدا ہوگا کہ وہ عورت کو اپنا غمگسار اور رفیق کار بلکہ اپنا مددگار سمجھنے لگیں گی جس سے خود بخود ساس نندوں کے دل میں ایک خاص قسم کی محبت پیدا ہو جائے گی خصوصاََ ساس’ خسر اور نندوں کی بیماری کے وقت عورت کو بڑھ چڑھ کر خدمت اور تیمارداری میں حصہ لینا چاہے کہ ایسی باتوں سے ساس’ خسر’ نندوں بلکہ شوہر کے دل میں عورت کی طرف سے جذبۂ محبت پیدا ہوجاتا ہے اور عورت سارے گھر کی نظروں میں وفاداروخدمت گزار سمجھی جانے لگتی ہے اور عورت کی نیک نامی میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔
(۱۶)عورت کے فرائض میں یہ بھی ہے کہ اگر شوہر غریب ہو اور گھریلو کام کاج کے لئے نوکرانی رکھنے کی طاقت نہ ہو تو اپنے گھر کا گھریلو کام کاج خود کرلیا کرے اس میں ہر گز ہرگز نہ عورت کی کوئی ذلت ہے نہ شرم ۔بخاری شریف کی بہت سے روایتوں سے پتاچلتا ہے کہ خود رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مقدس صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالی عنہا کا بھی یہی معمول تھا کہ وہ اپنے گھر کا سارا کام کاج خود اپنے ہاتھوں سے کیا کرتی تھیں کنویں سے پانی بھر کر اور اپنی مقدس پیٹھ پر مشک لاد کر پانی لایا کرتی تھیں خود ہی چکی چلا کر آٹا بھی پیس لیتی تھیں اسی وجہ سے ان کے مبارک ہاتھوں میں کبھی کبھی چھالے پڑ جاتے تھے اسی طرح امیرالمومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اﷲ تعالی عنہا کے متعلق بھی روایت ہے کہ وہ اپنے غریب شوہر حضرت زبیر رضی اﷲ تعالی عنہ کے یہاں اپنے گھر کا سارا کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرلیا کرتی تھیں یہاں تک کہ اونٹ کو کھلانے کے لئے باغوں میں سے کھجوروں کی گٹھلیاں چن چن کر اپنے سر پر لاتی تھیں اور گھوڑے کے لئے گھاس چارہ بھی لاتی تھیں اور گھوڑے کی مالش بھی کرتی تھیں۔
(۱۷)ہر بیوی کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کی آمدنی اور گھر کے اخراجات کو ہمیشہ نظر کے سامنے رکھے اور گھر کا خرچ اس طرح چلائے کہ عزت و آبرو سے زندگی بسر ہوتی رہے۔ اگر شوہر کی آمدنی کم ہو تو ہرگز ہرگز شوہر پر بیجا فرمائشوں کا بوجھ نہ ڈالے۔ اس لئے کہ اگر عورت نے شوہر کو مجبور کیا اور شوہر نے بیوی کی محبت میں قرض کا بوجھ اپنے سر پر اٹھا لیا اور خدا نہ کرے اس قرض کا ادا کرنا دشوار ہوگیا تو گھریلو زندگی میں پریشانیوں کا سامنا ہو جائے گا اور میاں بیوی کی زندگی تنگ ہو جائے گی اس لئے ہر عورت کو لازم ہے کہ صبروقناعت کے ساتھ جو کچھ بھی ملے خدا کا شکر ادا کرے اور شوہر کی جتنی آمدنی ہو اسی کے مطابق خرچ کرے اور گھر کے اخراجات کو ہر گز ہرگز آمدنی سے بڑھنے نہ دے۔
(۱۸)عورت کو لازم ہے کہ سسرال میں پہنچنے کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کی عادت بالکل ہی چھوڑدے۔ عموما عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ جہاں کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف ہوئی فوراً غصہ میں آگ بگولا ہو کر الٹ پلٹ شروع کردیتی ہیں یہ بہت بری عادت ہے لیکن میکے میں چونکہ ماں باپ اپنی بیٹی کاناز اٹھاتے ہیں اس لئے میکے میں تو ضد اور ہٹ دھرمی اور غصہ وغیرہ سے عورت کو کچھ زیادہ نقصان نہیں پہنچتا لیکن سسرال میں ماں باپ سے نہیں بلکہ ساس’ خسر اور شوہر سے واسطہ پڑتا ہے ان میں سے کون ایسا ہے جو عورت کے ناز اٹھانے کو تیار ہوگا۔ اس لئے سسرال میں عورت کی ضد اور ہٹ دھرمی اور غصہ اور چڑچڑاپن عورت کے لئے بے حد نقصان کا سبب بن جاتا ہے کہ پورے سسرال والے عورت کی ان خراب عادتوں کی وجہ سے بالکل ہی بیزار ہو جاتے ہیں اور عورت سب کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتی ہے۔
(۱۹)عموما سسرال کا ماحول میکے کے ماحول سے الگ تھلگ ہوتا ہے اور سب نئے نئے لوگوں سے عورت کا واسطہ پڑتا ہے اس لئے سچ پوچھو تو سسرال ہر عورت کے لئے ایک امتحان گاہ ہے جہاں اس کی ہر حرکت و سکون پر نظر رکھی جائے گی اور اس کے ہر عمل پر تنقید کی جائے گی۔ نیا ماحول ہونے کی وجہ سے ساس اور نندوں سے کبھی کبھی خیالات میں ٹکراؤ بھی ہوگا اور اس موقع پر بعض وقت ساس اور نندوں کی طرف سے جلی کٹی اور طعنوں کو سنوں کی کڑوی کڑوی باتیں بھی سننی پڑیں گی ایسے موقعوں پر صبر اور خاموشی عورت کی بہترین ڈھال ہے عورت کو چاہے کہ ساس اور نندوں کو ہمیشہ برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتی رہے اور ان کے طعنوں کو سنوں پر صبر کر کے بالکل ہی جواب نہ دے اور چپ سادھ لے یہ بہترین طریقہ عمل ہے ایسا کرتے رہنے سے ان شاء اﷲتعالیٰ ایک دن ایسا آئے گا کہ ساس اور نندیں خود ہی شرمندہ ہو کر اپنی حرکتوں سے باز آجائیں گی۔
(۲۰)عورت کو سسرال میں خاص طور پر بات چیت میں اس چیز کا دھیان رکھنا چاہے کہ نہ تو اتنی زیادہ بات چیت کرے جو سسرال والوں اور پڑوسیوں کو ناگوار گزرے اور نہ اتنی کم بات کرے کہ منت و خوشامد کے بعد بھی کچھ نہ بولے اس لئے کہ یہ غرور و گھمنڈ کی علامت ہے جو کچھ بولے سوچ سمجھ کر بولے اور اتنی نرم اور پیار بھرے لہجوں میں بات کرے کہ کسی کو ناگوار نہ گزرے اور کوئی ایسی بات نہ بولے جس سے کسی کے دل پر بھی ٹھیس لگے تاکہ عورت سسرال والوں اور رشتہ ناتا والوں اور پڑوسیوں سب کی نظروں میں ہر دلعزیز بنی رہے۔