فتح کے بعد خیبر کی زمین پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ بنونضیر کی طرح اہل خیبر کو بھی جلاوطن کردیں۔ لیکن یہودیوں نے یہ درخواست کی کہ ہم کو خیبر سے نہ نکالا جائے اور زمین ہمارے ہی قبضہ میں رہنے دی جائے۔ہم یہاں کی پیداوار کا آدھا حصہ آپ کو دیتے رہیں گے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست منظور فرمالی۔ چنانچہ جب کھجوریں پک جاتیں اور غلہ تیار ہوجاتا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیبر بھیج دیتے وہ کھجوروں اور اناجوں کو دو برابر حصوں میں تقسیم کردیتے اور یہودیوں سے فرماتے کہ اس میں سے جو حصہ تم کو پسند ہو وہ لے لو۔ یہودی اس عدل پر حیران ہوکر کہتے تھے کہ زمین و آسمان ایسے ہی عدل سے قائم ہیں۔ (1)(فتوح البلدان بلاذری ص ۲۷ فتح خیبر )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ خیبر فتح ہوجانے کے بعد یہودیوں سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس طورپر صلح فرمائی کہ یہودی اپنا سونا چاندی ہتھیار سب مسلمانوں کے سپرد کردیں اور جانوروں پر جو کچھ لدا ہوا ہے وہ یہودی اپنے پاس ہی رکھیں مگر شرط یہ ہے کہ یہودی کوئی چیز مسلمانوں سے نہ چھپائیں مگر اس شرط کو قبول کرلینے کے باوجود حیی بن اخطب کاوہ چرمی تھیلا یہودیوں نے غائب کردیا جس میں بنونضیر سے جلاوطنی کے وقت وہ سونا چاندی بھر کر لایا تھا۔ جب یہودیوں سے پوچھ گچھ کی گئی تو وہ جھوٹ بولے اور کہا کہ وہ ساری رقم لڑائیوں میں خرچ ہوگئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بتا دیا کہ وہ تھیلا کہاں ہے۔
چنانچہ مسلمانوں نے اس تھیلے کو برآمد کرلیا۔ اس کے بعد(چونکہ کنانہ بن ابی الحقیق نے حضرت محمود بن مسلمہ کو چھت سے پتھر گرا کر قتل کردیا تھا اس لئے) حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو قصاص میں قتل کرا دیا اور اس کی عورتوں کو قیدی بنا لیا ۔(1) (مدارج النبوۃ ج ۲ص ۲۴۵ و ابوداؤد ج ۲ ص ۴۲۴ باب ماجاء فی ارض خیبر )