یہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سب سے پہلی رفیقۂ حیات ہیں۔ ان کے والد کا نام خویلد بن اسد اور ان کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ ہے۔ یہ خاندان قریش کی بہت ہی معزز اور نہایت ہی دولت مند خاتون تھیں۔ ہم اِس کتاب کے تیسرے باب میں لکھ چکے ہیں کہ اہل مکہ ان کی پاک دامنی اور پارسائی کی بنا پر انکو ”طاہرہ” کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ انہوں نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق و عادات اور جمالِ صورت و کمالِ سیرت کو دیکھ کر خود ہی حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے نکاح کی رغبت ظاہر کی اور پھر باقاعدہ نکاح ہو گیا جس کا مفصل تذکرہ گزر چکا۔ علامہ ابن اثیر اور امام ذہبی کا بیان ہے کہ اس بات پر تمام اُمت کا اجماع ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر سب سے پہلے یہی ایمان لائیں اور ابتداء اسلام میں جب کہ ہر طرف سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مخالفت کا طوفان اُٹھ رہا تھا ایسے کٹھن وقت میں صرف انہیں کی ایک ذات تھی جو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مونس حیات بن کر تسکین خاطر کا باعث تھی۔ انہوں نے اتنے خوفناک اور خطرناک اوقات میں جس استقلال اور استقامت کے ساتھ خطرات و مصائب کا مقابلہ کیا اور جس طرح تن من دھن سے بارگاہ نبوت میں اپنی قربانی پیش کی اس خصوصیت میں تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن پر ان کو ایک خصوصی فضیلت حاصل ہے۔ چنانچہ ولی الدین عراقی کا بیان ہے کہ قول صحیح اور مذہب مختار یہی ہے کہ امہات المؤمنین میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سب سے زیادہ افضل ہیں۔
ان کے فضائل میں چند حدیثیں وارد بھی ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اورعرض کیا کہ اے محمد!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ خدیجہ ہیں جو آپ کے پاس ایک برتن لے کر آ رہی ہیں جس میں کھانا ہے۔ جب یہ آپ کے پاس آ جائیں تو آپ ان سے ان کے رب کا اور میرا سلام کہہ دیں اور ان کو یہ خوشخبری سنا دیں کہ جنت میں ان کے لئے موتی کا ایک گھر بناہے جس میں نہ کوئی شور ہو گا نہ کوئی تکلیف ہو گی۔(1)(بخاری جلد۱ص۵۳۹ باب تزویج النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
امام احمد و ابو داؤد و نسائی،حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی ہیں کہ اہل جنت کی عورتوں میں سب سے افضل حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ، حضرت مریم و حضرت آسیہ ہیں۔(2)(رضی اللہ تعالیٰ عنہن)(زرقانی جلد۳ ص۲۲۳ تا۲۲۴)
اسی طرح روایت ہے کہ ایک مرتبہ جب حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبانِ مبارک سے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی بہت زیادہ تعریف سنی تو انہیں غیرت آ گئی اور انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اب تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ان سے بہتر بیوی عطا فرما دی ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں خدا کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲ تعالیٰ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ (1)(زرقانی جلد۳ ص۲۲۴)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ازواجِ مطہرات میں سب سے زیادہ مجھے حضرت خدیجہ کے بارے میں غیرت آیا کرتی تھی حالانکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ غیرت کی وجہ یہ تھی کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت زیادہ ان کا ذکر ِخیر فرماتے رہتے تھے اور اکثر ایسا ہوا کرتا تھا کہ آپ جب کوئی بکری ذبح فرماتے تھے توکچھ گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے گھروں میں ضرور بھیج دیا کرتے تھے اس سے میں چڑ جایا کرتی تھی اور کبھی کبھی یہ کہہ دیا کرتی تھی کہ ”دنیا میں بس ایک خدیجہ ہی تو آپ کی بیوی تھیں۔” میرا یہ جملہ سن کر آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہاں ہاں بے شک وہ تھیں وہ تھیں انہیں کے شکم سے تو اﷲ تعالیٰ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ (2) (بخاری جلد۱ ص۵۳۹ ذکر خدیجہ)
امام طبرانی نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو دنیا میں جنت کا انگور کھلایا۔ اس حدیث کو امام سہیلی نے بھی نقل فرمایا ہے۔(3)(زرقانی جلد۳ص ۲۲۶)
حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پچیس سال تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت گزاری سے سرفراز رہیں، ہجرت سے تین برس قبل پینسٹھ برس کی عمر پا کر ماہ رمضان میں مکہ معظمہ کے اندر انہوں نے وفات پائی۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے مشہور قبرستان حجون (جنت المعلی) میں خود بہ نفس نفیس ان کی قبر میں اتر کر اپنے مقدس ہاتھوں سے ان کو سپرد خاک فرمایا چونکہ اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔(1) (زرقانی جلد۳ ص۲۲۷ و اکمال فی اسماء الرجال ص۵۹۳)