سیِّدُناحبیب نجار علیہ رحمۃ اللہ الغفارکی ایمان افروزحکایت

سیِّدُناحبیب نجار علیہ رحمۃ اللہ الغفارکی ایمان افروزحکایت



    حضرت سیِّدُناحبیب نجارعلیہ رحمۃ اللہ الغفار مُتّقی پرہیزگار، اولیاء کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام میں سے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رات بھر عبادت کرتے اور دن بھر روزہ رکھتے اور افطار کے لئے جو کھاناحاضرکیا جاتاوہ دوسروں کو دے دیتے اور خود ساری رات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بھوکے ہی قیام میں گزار دیتے۔جب صبح قریب ہونے کو آتی توعاجزی وانکساری بھرے الفاظ میں عرض کرتے:”میں غفلت کے سمندروں میں ڈوبارہااور گناہ کے میدانوں میں چلتا رہا۔اپنی رسوائی کے دامن کو کھینچتا رہا۔ بدبختی کے جنگلوں میں حیران و سرگرداں بھٹکتارہا۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! تیرے سوا میرا کوئی سہارا نہیں،میں تیرے در کے علاوہ کوئی در نہیں
اتا کہ جہاں التجا کروں۔ یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ ! یہ تیرا ذلیل، گنہگار اوربیما ر بندہ تیرے بابِ کرم پر حاضر ہے اور تجھ سے پناہ کا طلب گار ہے۔ ہائے میری ہلاکت وبربادی! اگر تو نے مجھ پر رحم نہ فرمایا اور ہائے میری طویل حسرت! اگر تو نے مجھے معاف نہ فرمایا ۔” پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سجدہ کرتے اور طلوعِ فجر تک سرنہ اُٹھاتے۔ جب نماز پڑھ لیتے تو تلاوت شروع کر دیتے اور باقی دن میں پورا قرآن پڑھ لیتے۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انتقال فرمایاتو سورۂ یٰسین کی یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرما رہے تھے:

 (1) اِنِّیۡۤ اِذًا لَّفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿24﴾

ترجمۂ کنزالایمان:بے شک جب تو میں کھلی گمراہی میں ہوں۔(۱) (پ23،یٰسۤ:24)
    تدفین کے بعدجب فرشتوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایمان کے متعلق سوال کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے اگلی آیتِ مبارکہ تلاوت کی:

(2) اِنِّیۡۤ اٰمَنۡتُ بِرَبِّکُمْ فَاسْمَعُوۡنِ ﴿ؕ25﴾قِیۡلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ ؕ قَالَ یٰلَیۡتَ قَوْمِیۡ یَعْلَمُوۡنَ ﴿ۙ26﴾بِمَا غَفَرَ لِیۡ رَبِّیۡ وَ جَعَلَنِیۡ مِنَ الْمُکْرَمِیۡنَ ﴿27﴾

ترجمۂ کنزالایمان:مقرَّر، مَیں تمہارے رب پر ایمان لایا تو میری سنو۔ اس سے فرمایا گیاکہ جنت میں داخل ہو۔ کہا: کسی طرح میری قوم جانتی جیسی میرے رب نے میری مغفرت کی اور مجھے عزت والوں میں کیا۔(۲)(پ23،یٰسۤ:25تا27)
    سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! یہ کیسے عظیم لوگ ہیں جو اپنے محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کے حضور مناجات کرتے رہتے ہیں جبکہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں، یہ عشق ومحبت کا بھاری بوجھ اٹھاتے ہیں۔ جب رات کی تاریکی چھاجائے تو خوش ہوتے ہیں۔یہی لوگ کل جنت الخلد میں نعمتیں لوٹیں گے اور اپنے محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کے وجہِ کریم کا جلوہ دیکھیں گے۔
     ان کی شان قرآنِ پاک یوں بیان فرماتا ہے:

(3) اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ62﴾

ترجمۂ کنزالایمان:سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔(۳)(پ11،یونس:62)



1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”جب حبیب نجّار نے اپنی قوم سے ایسا نصیحت آمیز کلام کیا تو وہ لوگ ان پر یکبارگی ٹوٹ پڑے اور ان پر پتھراؤ شروع کیا اور پاؤں سے کُچلا یہاں تک کہ قتل کر ڈالا۔ قبر اُن کی انطاکیہ میں ہے۔ جب قوم نے ان پر حملہ شروع کیا تو اُنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے فرستادوں سے بہت جلدی کرکے یہ کہا۔”
2۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”جب وہ جنّت میں داخل ہوئے اور وہاں کی نعمتیں دیکھیں۔ حبیب نجّار نے یہ تمنّا کی کہ ان کی قوم کو معلُوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے حبیب کی مغفرت کی اور اکرام فرمایا تاکہ قوم کو مرسلین کے دین کی طرف ر غبت ہو۔ جب حبیب قتل کردئیے گئے تواللہ ربُّ العزّت کا اس قوم پر غضب ہوا اور ان کی عقوبت و سزا میں تاخیر نہ فرمائی گئی۔ حضرت جبریل کو حکم ہوا اور ان کی ایک ہی ہولناک آواز سے سب کے سب مر گئے ۔”
3۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے
 تحت فرماتے ہیں: ”ولی کی اصل ولاء سے ہے جو قرب و نصرت کے معنی میں ہے ۔ولی اللہ وہ ہے جو فرائض سے قربِ الٰہی حاصل کرے او راطاعتِ الٰہی میں مشغول رہے اور اس کا دل نورِ جلالِ الہٰی کی معرفت میں مستغرق ہو۔ جب دیکھے دلائلِ قدرتِ الٰہی کو دیکھے اور جب سنے اللہ کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے رب کی ثنا ہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے طاعتِ الہٰی میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے اسی امر میں کوشش کرے جو ذریعۂ قربِ الٰہی ہو،اللہ کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے۔ یہ صفت اولیاء کی ہے۔ بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تواللہ اس کا ولی و ناصر اور معین و مددگار ہوتا ہے۔ متکلمین کہتے ہیں: ولی وہ ہے جو اعتقادِ صحیح مبنِی بر دلیل رکھتا ہو اور اعمالِ صالحہ شریعت کے مطابق بجالاتا ہو ۔بعض عارفین نے فرمایا کہ” ولایت نام ہے قربِ الٰہی اور ہمیشہ اللہ کے ساتھ مشغول رہنے کا۔ جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو کسی چیز کا خوف نہیں رہتااور نہ کسی شے کے فوت ہونے کا غم ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ” ولی وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ یاد آئے ۔یہی طبری کی حدیث میں بھی ہے ابن زید نے کہا کہ” ولی وہی ہے جس میں وہ صفت ہو جو اس آیت میں مذکور ہے۔ ” اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ” یعنی ایمان و تقویٰ دونوں کا جامع ہو ۔بعض علماء نے فرمایا کہ” ولی وہ ہیں جو خالص اللہ کے لئے محبت کریں۔ اولیاء کی یہ صفت احادیث کثیرہ میں وارد ہوئی ہے۔ بعض اکابر نے فرمایا: ولی وہ ہیں جو طاعت سے قربِ الٰہی کی طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کرامت سے ان کی کار سازی فرماتا ہے یا وہ جن کی ہدایت کا برہان کے ساتھ اللہ کفیل ہو اور وہ اس کا حقِ بندگی ادا کرنے اور اس کی خلق پر رحم کرنے کے لئے وقف ہوگئے ۔یہ معانی اور عبارات اگرچہ جداگانہ ہیں لیکن ان میں اختلاف کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک عبارت میں ولی کی ایک ایک صفت بیان کردی گئی ہے جسے قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے یہ تمام صفات اس میں ہوتی ہیں۔ ولایت کے درجے اور مراتب میں ہر ایک بقدر اپنے درجے کے فضل و شرف رکھتا ہے۔” 
Exit mobile version