امام محمدانوار اللہ فاروقی
کے قائم کردہ تعلیمی و ادارے
بقلم: شاہ محمد فصیح الدین نظامی رضوی اشرفی، مہتمم کتب
خانہ جامعہ نظامیہ
1۔ جامعہ نظامیہ ۔ حیدرآباد (آندھراپردیش)
2۔ دارالعلوم دینیہ معینیہ اجمیر شریف (راجستھان)
3۔ مدرسہ حفاظ شاہی ، مکہ مسجد، حیدرآباد (آندھراپردیش)
4۔ مدرسہ حفاظ، خلد آباد شریف (مہاراشٹرا)
5۔ مدرسہ دینیہ مسجد چوک، حیدرآباد (آندھراپردیش)
6۔ مدرسہ دینیہ، مسجد میاں مشک، حیدرآباد (آندھراپردیش)
7۔ مدرسہ دینیہ، افضل گنج، حیدرآباد (آندھراپردیش)
8۔ مدرسہ صوفیہ، محمد آباد بیدرشریف، (کرناٹک)۱؎
(مولانا مفتی محمد رکن الدین؍مطلع الانوار ص 49-48۔ مجلس اشاعۃ العلوم حیدرآباد)
علمی، تحقیقی و اشاعتی ادارے
1۔ دائرۃ المعارف العثمانیہ ، حیدرآباد (آندھراپردیش)
2۔ مجلس اشاعۃ العلوم، حیدرآباد (آندھراپردیش)
3۔ کتب خانہ آصفیہ ، حیدرآباد (آندھراپردیش)
4۔ انجمن امداد المعارف (کتب خانہ )، حیدرآباد (آندھراپردیش)
5۔ انجمن انوار المعارف (کتب خانہ ) حیدرآباد (آندھراپردیش)
(بحوالہ، مفتی محمد رکن الدینؒ؍مطلع الانوار ص 49-48 ، مجلس اشاعۃ العلوم حیدرآباد)
دارالعلوم دینیہ معینیہ عثمانیہ
(۱) اجمیر شریف ہندوستان کا مشہور اور مرکزی شہرہے۔ اہل کمالِ کا مرجع ہے دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اندرون درگاہ معلی محفل خانہ میں تھا۔
اب ذرا چند لمحے ٹہرکر دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف کے قیام کا پس منظر ملاحظہ فرمائیے۔
قاطعِ نجدیت مصنف انوار احمدی حضرت مولانا انوار اللہ حیدرآبادیؒ (م۱۳۳۶ھ) اور ان کے تلمیذ رشید تاجداردکن اعلی حضرت میر عثمان علی خاں نظام آصف سابع دکن شوال ۱۳۳۰ھ میں سلطان الہند خواجہ غریب نواز قدس سرہ العزیز کے دربا گہربار میں حاـضرہوئے تاجدار دکن اپنے استاذ محترم کا بڑا ادب واحترام کرتے تھے۔ ان کے حکم پر ہمیشہ سر تسلیم خم کرتے تھے۔ حضرت مولانا انوار اللہ حیدرآبادیؒ نے بارگاہ خواجہ کے قریب دارالعلوم کے قیام کا مشورہ دیا نواب دکن نے بسر وچشم قبول کیا اور حضرت مولانا انواراللہ حیدرآبادیؒ کی سر پر ستی میں دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا میر نثار احمد متولی درگاہ معلی کو دارالعلوم کا معتمد منتخب کیا دارالعلو م کے قیام کے سلسلہ میں حضرت
لانا معین الدین اجمیر ی کا تعاون بھی قدم بہ قدم پر شامل حال رہا مولانا معین الدین اجمیر ی کامدرسہ معینیہ او رخدام درگاہ کا مکتب فخر یہ پہلے سے جاری تھے باہم مشورہ کے بعد دونوں کو اسی دارالعلوم میں ضم کردیا او رنیانام دارالعلوم معینیہ عثمانیہ طے پایا،مولانا معین الدین اجمیر ی دارالعلوم کے اولین صدر مدرس ہوئے لیکن انتظامی امور میں سخت اختلاف کی وجہ سے اواخر ذی الحجہ ۱۳۳۷ھ ؍اگست ۱۹۱۹ء میں انہوں نے استعفی دے دیا۔ ان کے بعد مولانا احمد حسن کانپوری (م۱۳۲۲ھ) کے فرزند اکبر مولانا شاہ مشتاق احمد نظامی کانپوری (م۱۳۵۲ھ) بحیثیت صدر مدرس بلائے گئے مگریہ بھی ۱۳۴۵ھ کی سالانہ تعطیل کے بعدتشریف نہیں لائے، پھر حضرت مولانا سید سلیمان اشرف (م ۱۳۵۲ھ) کی وساطت سے حضرت صدر الشریعہ تشریف لائے آپ بھی ۱۳۵۰ھ میں مستعفی ہوگئے آپ کے بعد مولانا معین الدین اجمیری نے جگہ سنبھالی لیکن تاجداردکن کے حکم سے انہیں بھی نوٹس دے دیا گیا آخر میں مولانا محمد شریف اعظمی اس منصب پر جائزہوئے ان کی رحلت کے ساتھ ہی دارالعلوم کا دور عروج بھی الواداع کہہ گیا دارالعلوم اب بھی جاری ہے۔
دارلعلوم معینیہ عثمانیہ میں دوطرح کا نصاب تعلیم جاری تھا۔
تکمیل دینیات:۔ یہ ان طلبہ کے لیے تھا ، جن کے پا س وقت کم تھا۔ یا نسبۃً کمزور ذہن اور کم استعداد رکھتے تھے۔ ان کو عالیہ کے مبادیات کے ضروری حصے پڑھا کر دینیات کی تکمیل کرادی جاتی تھی۔
تکمیل اعلی :۔ اس میں فقہ ، اصول فقہ ، تفسیر اور حدیث کی امہات کتب کے ساتھ منطق وفلسفہ وغیرہ علوم عالیہ کی اہم کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔۱؎ (۱؎ : دارالعلوم معینیہ الحمدللہ اس وقت نہ صرف کار کرد ہے بلکہ اپنی بہتر خدمات کے نقوش بنارہا ہے راقم الحروف کو بارہا اجمیر القدس کی حاضری کے موقع پر دارالعلوم بھی جانے کی سعادت حاصل ہوئی فاضل جلیل مولانا بشیر القادری ثم النظامی مولوی فاضل و کامل جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن صدر مدرس کی حیثیت سے عرصہ پندرہ سال سے بہترین خدمات انجام دے رہے ہیں)
(بحوالہ: ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور، سپٹمبر۲۰۰۰ء)
دارالعلوم معینیہ اجمیر شریف میں اکابر علماء اہل سنت نے تحصیل علم کیا، مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمنؒ حجۃ اللہ شاہؒ (ولادت 1326ء) خلیفہ حضرت سید شاہ علی حسینی اشرفیؒ کو ان کی ’’علمی پیاس اجمیر شریف دارالخیر لے گئی۔ دارالعلوم معینیہ عثمانیہ درگاہ معلی میں دو سال پڑھنے کے بعد جامعہ مراد آباد میں حضرت صدر الافاضل علیہ الرحمہ سے دورۂ حدیث کیا‘‘ (ص: 406)
حضرت مولانا مفتی امتیاز احمد انبیٹھوی علیہ الرحمہ اعزاز اللہ شاہؒ خلیفہ حضرت سید شاہ علی حسینی اشرفیؒ ’’دارالعلوم معینیہ عثمانیہ درگاہ معلی دارالخیر اجمیر مقدس میں درجۂ علیا کے مدرس اور دارالافتاء کے مفتی تھے۔ ان کے تلامیذ کبار ہوئے‘‘ (ص۔414)
حضرت امین شریعت مولانا شاہ رفاقت حسینؒ (بھوانی پور ضلع مظفر آباد (بہار) حضرت مولانا سید شاہ طاہر اشرف دہلویؒ کے مشورہ سے دارالخیر درگاہ معلی اجمیر مقدس کے دارالعلوم معینیہ عثمانیہ میں 1346ھ تا 1356ھ تکمیل اعلیٰ کے طالب علم رہے۔ طلبہ میں ذہانت و ذکاوت میں سب سے ممتاز تھے، آپ کے استاذ مکرم حضرت صدر الشریعہ مولانا حکیم امجد علی صاحبؒ فرماتے ہیں۔ میری پوری زندگانی
میں صرف یہی ایک جماعت ملی جس کا ہر فرد ذی استعداد ہے تحصیل حکمت و دانش کے بعد اکتساب علم انوار الٰہی کی دولت بے بہا بھی اجمیر مقدس میں پائی‘‘۔ (ص : 419-418)
حضرت مولانا حافظ عبدالعزیز محدث مرآبادیؒ (ولادت 1314ھ) نے 1344ھ میںاجمیر شریف جاکر دارالعلوم معینیہ عثمانیہ میں داخل ہوگئے۔ رجب 1350ھ میں سند تکمیل پائی اسی سنہ میں حضرت مخدوم الاولیاء محبوب ربانی قدس سرہ‘ سے مرید ہوئے۔ خلافت سے بھی نوازے گئے‘‘۔ (ص: 427)
(از، حیات مخدوم الاولیاء محبوب ربانی مولانا شاہ محمود احمد قادری چشتی؍ مطبوعہ 2001ء)
پہلے یہاں وسیع صحن تھا۔ ایام عرس میں یہاں شامیانہ استادہ کرکے محافل سماع منعقد کی جاتی تھیں بعد ازاں میر حفیظ علی صاحب سابق متولی درگاہ شریف نے 6 ہزار روپئے کی لاگت سے یہاں ایک دالان بنوانے کی سعادت حاصل کی۔ بعدہ اس دالان کے سامنے دل بادلی شامیانے استادہ ہوکر عرس شریف کی محافل سماع منعقد ہونے لگیں۔ موجودہ شاندار اور وسیع سماع خانہ (محفل خانہ) نواب بشیر الدولہ سر آسماں جاہ مدارالمہام دولت آصفیہ امیر پائیگاہ نے اپنے فرزند معین الدولہ کی ولادت پر تعمیر کرایا۔ موصوف نے اپنے یہاں فرزند ہونے کی دربار غریب نواز میں دعا مانگی تھی۔ دعا قبول ہوئی خدا نے انہیں اسّی سال کی عمر میں بیٹا دیا۔ مراد پوری ہونے پر بطور اظہار تشکر اسّی ہزار روپے کے صرفہ سے یہ رفیع الشان مجلس خانہ تعمیر کرایا۔ اس کی تعمیر 1306ھ سے شروع ہوکر 1309ھ میں اختتام پذیر ہوئی۔ یہ عمارت 46 فٹ مربع ہے۔ تعمیر میر کاظم علی صاحب کمشنر بلدیہ سرکار عالی اور میر حسین علی صاحب داروغہ مکہ مسجد (حیدرآباد دکن) کے اہتمام سے ہوئی۔ اس میں قیمتی جھاڑ، فانوس آویزاں ہیں۔ آج کل ان میں بجائے موم بتی کے برقی روشنی رہتی ہے۔ یہاں دارؔالعلوم معینیہ عثمانیہ قائم تھا مگر انقلاب 1947ء کے بعد یہ بند ہوگیا اب یہاں موجودہ سرکاری نصاب کے مطابق ابتدائی تعلیم ہوتی ہے‘‘۔ (از: کتاب معین الارواح ص ۲۵۳؍ مصنفہ نواب محمد خادم حسن شاہ اجمیری 1983ء
اس محفل خانہ کے ضمن میں دارالعلوم کا تذکرہ کرتے ہوئے ’’ہمارے خواجہ‘‘ کے مصنف حضرت معنی اجمیری پہلے ایڈیشن ۱۹۳۰ء میں رقمطراز ہیں
’’چونکہ اب تک سرکار عالی کے دارالعلومؔ معینیہ کی کوئی عمارت نہیں ہے۔ اس لیے دارالعلومؔ کے طلباء اس محفل خانہ میں تعلیم پاتے ہیں۔ (ص 60دسواں ایڈیشن 1998ء)