وَصلِ سوم دَر حُسنِ مُفاخَرَت اَز سرکارِ قادریت رَضِیَ اللّٰہُ تَعالٰی عَنْہُ
تُو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
تُو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
تُو ہے وہ غیث کہ ہر غیث ہے پیاسا تیرا
سورج(1)اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈُوبے
اُفق نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا
مُرغ(2)سب بولتے ہیں بول کے چُپ رہتے ہیں
ہاں اَصیل ایک نوا سَنْج رہے گا تیرا
جو(3)وَلی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب اَدب رکھتے ہیں دِل میں مِرے آقا تیرا
بقسم کہتے ہیں شاہانِ صریفین(1)و حریم
کہ ہُوا ہے نہ ولی ہو کوئی ہمتا تیرا
تجھ(2)سے اور دَہر کے اقطاب سے نسبت کیسی
قطب خود کون ہے خادم تِرا چیلا تیرا
سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبہ کا طواف
کعبہ کرتا ہے طوافِ درِ والا تیرا
اور پروانے ہیں جو ہوتے ہیں کعبہ پہ نثار
شمع اِک تُو ہے کہ پروانہ ہے کعبہ تیرا
شجرِ سرو سہی کِس کے اُگائے تیرے
معرفت پھول سہی کس کا کھِلایا تیرا
تُو ہے نوشاہ بَراتی ہے یہ سارا گلزار
لائی ہے فصل سمن گوندھ کے سہرا تیرا
ڈالیاں جُھومتی ہیں رقصِ خوشی جوش پہ ہے
بلبُلیں جُھولتی ہیں گاتی ہیں سہرا تیرا
گیت کلیوں کی چٹک غزلیں ہزاروں کی چہک
باغ کے سازوں میں بجتا ہے ترانا تیرا
صفِ ہر شجرہ میں ہوتی ہے سلامی تیری
شاخیں جُھک جُھک کے بجا لاتی ہیں مجرا تیرا
کِس گلستاں کو نہیں فصلِ بہاری سے نیاز
کون سے سلسلہ میں فیض نہ آیا تیرا
نہیں کس چاند کی منزل میں تِرا جلوۂ نور
نہیں کس آئینہ کے گھر میں اُجالا تیرا
راج کس شہر میں کرتے نہیں تیرے خدّام
باج کس نہر سے لیتا نہیں دریا تیرا
مزرعِ چِشت و بخارا(1)و عِراق(2) و اجمیر
کون سی کِشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا
اور محبوب(3) ہیں ، ہاں پر سبھی یکساں تو نہیں
یُوں تو محبوب ہے ہر چاہنے والا تیرا
اس کو سو فرد سراپا بفراغت اوڑھیں
تنگ ہو کر جو اُترنے کو ہو نیما تیرا
گردنیں جھک گئیں سر بچھ گئے دِل لوٹ گئے
کشفِ(4)ساق آج کہاں یہ تو قدم تھا تیرا
تاجِ فرقِ عرفا کِس کے قدم کو کہئے!
سر جسے باج دیں وہ پاؤں ہے کِس کا تیرا
سُکر کے جوش میں جو ہیں وہ تجھے کیا جانیں
خِضر کے ہوش سے پُوچھے کوئی رُتبہ تیرا
آدمی اپنے ہی احوال پہ کرتا ہے قِیاس
نشے والوں نے بھلا سُکر نکالا تیرا
وہ تو چھوٹا ہی کہا چاہیں کہ ہیں زیرِ حضیض
اور ہر اَوج سے اُونچا ہے ستارہ تیرا
دلِ اعدا کو رضاؔ تیز نمک کی دُھن ہے
اِک ذرا اور چھڑکتا رہے خامہ تیرا
٭…٭…٭…٭…٭…٭
________________________________
1 – ۔۔۔ یعنی حضرت ابو عَمر و عثمان صریفینی و ابو محمد عبدالحق حریمی کہ ہر دوازاولیائِ معاصرینِ حضور سیّدنا بودہ اندرَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ وَعَنْہُمْ ۔۱۲
2 – ۔۔۔ ردِآں بے خردآنکہ ہمہ اقطاب رابا سیّدنارَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ مساوی المرتبہ دانند،وایں دو شعر ترجمۂ آں اشعار است کہ از حضور سیّدنارَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنقل می کنند کماذکرنافی المجیر المعظم۔واﷲ تعالیٰ اعلم۔۱۲
1 – ۔۔۔ حضرت خواجہ بہاء الحق والدّین نقشبند قدس سرہ العزیز بخاری است ۔۱۲
2 – ۔۔۔ حضرت شیخ الشیوخ سہروردی قدس سرہاز اولیائِ عراق است سیّدنارَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُاورا فرمود:’’اَنْتَ اٰخِرُ المَشْھُورِیْن بِالْعِراق‘‘۔۱۲
3 – ۔۔۔ ردِجاہلانیکہ ہمہ محبوباں راہمسرِ حضرت سیّدنارَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُدانند۔
4 – ۔۔۔ یقول کانھم لکمَال الدھش ذھبَت اذْھَا نھُم اِلی قولہٖ تَعالٰی:’’یَوم یکشف عنَ سَاقٍ‘‘ مَع انّہ لم یَکنْ اِلّاجلوۃ العبد لا تجلی المعبود کما تسجد اھل الجنۃ حین یَرون نور رداء عثمان رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہ عند تحولہ من بیت الی بیت زعمَا منھم انہ قد تجلی لھم ربھم تبارک و تعالٰی کما وردفی الحدیث۔۱۲