نبی و رسول چونکہ دین کے داعی اورشریعت و ملت کے مبلغ ہوتے ہیں اور تعلیم شریعت اور تلقین دین کا بہترین ذریعہ خطبہ اور وعظ ہی ہے اس لئے ہر نبی و رسول کا خطیب اور واعظ ہونا ضروریات ولوازمِ نبوت میں سے ہے۔ یہی و جہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی رسالت سے سرفراز فرما کر فرعون کے پاس بھیجا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت یہ دعا مانگی کہ
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیۡ صَدْرِیۡ ﴿ۙ۲۵﴾وَ یَسِّرْ لِیۡۤ اَمْرِیۡ ﴿ۙ۲۶﴾وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ﴿ۙ۲۷﴾یَفْقَہُوۡا قَوْلِیۡ ﴿۪۲۸﴾ (1)
اے میرے رب میرا سینہ کھول دے میرے لئے میرا کام آسان کر اور میری زَبان کی گرہ کھول دے کہ وہ لوگ میری بات سمجھیں۔(طہٰ)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم چونکہ تمام رسولوں کے سردارا اور سب نبیوں کے خاتم ہیں اس لئے خداوند قدوس نے آپ کو خطابت و تقریر میں ایسا بے مثال کمال عطا فرمایا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم افصح العرب (تمام عرب میں سب سے بڑھ کر فصیح) ہوئے اور آپ کو جوامع الکلم کا معجزہ بخشا گیا کہ آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ میں معانی و مطالب کا سمندر موجیں مارتا ہوا نظر آتا تھا اور آپ کے جوش تکلم کی تاثیرات سے سامعین کے دلوں کی دنیا میں انقلابِ عظیم پیدا ہو جاتا تھا۔
چنانچہ جمعہ وعیدین کے خطبوں کے سوا سینکڑوں مواقع پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسے ایسے فصیح و بلیغ خطبات اور موثر مواعظ ارشاد فرمائے کہ فصحاء عرب حیران رہ گئے اوران خطبوں کے اثرات و تاثیرات سے بڑے بڑے سنگدلوں کے دل موم کی طرح پگھل گئے اور دم زدن میں ان کے قلوب کی دنیا ہی بدل گئی۔
چونکہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مختلف حیثیتوں کے جامع تھے اس لئے آپ کی یہ مختلف حیثیات آپ کے خطبات کے طرز بیان پر اثر انداز ہوا کرتی تھیں۔ آپ ایک دین کے داعی بھی تھے، فاتح بھی تھے، امیر لشکر بھی تھے ،مصلح قوم بھی تھے، فرماں روا بھی تھے، اس لئے ان حیثیتوں کے لحاظ سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خطبات میں قسم قسم کا زور بیان اور طرح طرح کا جوشِ کلام ہوا کرتا تھا۔ جوشِ بیان کا یہ عالم تھا کہ بسا اوقات خطبہ کے دوران میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ اور آواز بہت ہی بلند ہو جاتی تھی اور جلالِ نبوت کے جذبات سے آپ کے چہرۂ انور پر غضب کے آثار نمودار ہو جاتے تھے بار بار انگلیوں کو اٹھا اٹھا کر اشارہ فرماتے تھے گویا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو للکار رہے ہیں۔ (1) (مسلم جلد۱ ص۲۸۴ کتاب الجمعہ)
چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پرجوش خطبہ اورتقریر کے جوش و خروش کی بہترین تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ خداوند جبار آسمانوں اورزمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا، پھر فرمائے گا کہ میں جبار ہوں، میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں جبار لوگ؟ کدھر ہیں متکبرین؟ یہ فرماتے ہوئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی مٹھی بند کر لیتے کبھی مٹھی کھول دیتے اور آپ کا جسم اقدس (جوش میں) کبھی دائیں کبھی بائیں جھک جھک جاتا یہاں تک کہ میں نے یہ دیکھا کہ منبر کا نچلا حصہ بھی اس قدر ہل رہا تھا کہ میں (اپنے دل میں) یہ کہنے لگا کہ کہیں یہ منبر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو لے کر گر تو نہیں پڑے گا۔(1)(ابن ما جہ ص۳۲۶ ذکر البعث)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے منبرپر، زمین پر، اُونٹ کی پیٹھ پر کھڑے ہو کر جیسا موقع پیش آیا خطبہ دیا ہے۔ کبھی کبھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے طویل خطبات بھی دئیےلیکن عام طور پر آپ کے خطبات بہت مختصر مگر جامع ہوتے تھے۔
میدانِ جنگ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے اور مسجدوں میں جمعہ کا خطبہ پڑھتے وقت دستِ مبارک میں ”عصا” ہوتا تھا۔(2)
(ابن ما جہ ص۷۹ باب ماجاء فی الخطبۃ یوم الجمعۃ)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خطبوں کے اثرات کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بعض مرتبہ سخت سے سخت اشتعال انگیز موقعوں پر آپ کے چند جملے محبت کا دریا بہا دیتے تھے۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسا اثر انگیز اور ولولہ خیز خطبہ پڑھا کہ میں نے کبھی ایسا خطبہ نہیں سنا تھا درمیان خطبہ میں آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! جو میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ زبانِ مبارک سے اس جملہ کا نکلنا تھا کہ سامعین کایہ حال ہو گیا کہ لوگ کپڑوں میں منہ چھپا چھپا کر زارو قطار رونے لگے۔(1)(بخاری جلد۲ ص۶۶۵ تفسیر سورۂ مائدہ)