یہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بہن ہیں فتح مکہ کے سال ۸ھ میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ظہور اسلام سے پہلے ہی ان کی شادی ہبیرہ بن ابی وہب کے ساتھ ہوگئی تھی ہبیرہ اپنے کفر پر اڑا رہا اور مسلمان نہیں ہوا ۔
(الاستیعاب ،کتاب کنی النساء،باب الھاء۳۶۵۶،أم ھانی بنت أبی طالب،ج۴،ص۵۱۷)
اس لئے میاں بیوی میں جدائی ہوگئی حضور اقدس صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کے زخمی دل کو تسکین دینے کے لئے ان کے پاس کہلا بھیجا کہ اگر تمہاری خواہش ہو تو میں خود تم سے نکاح کر لوں انہوں نے جواب میں عرض کیا کہ یا رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! جب میں کفر کی حالت میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے محبت کرتی تھی تو بھلا اسلام کی دولت مل جانے کے بعد میں کیوں نہ آپ سے محبت کروں گی؟ لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں مجھے خوف ہے کہ میرے ان بچوں کی وجہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ان کا جواب سن کر مطمئن ہوگئے ۔
حضرت ام ہانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی یہ دو خصوصیات بہت زیادہ باعث شرف ہیں ایک یہ کہ فتح مکہ کے دن حضرت ام ہانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ایک کافر کو امان اور پناہ دے دی اس کے بعد حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کافر کو قتل کرنا چاہا جب ام ہانی نے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے عرض کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جس کو تم نے امان دے دی اس کو ہم نے بھی امان دے دی۔
(صحیح البخاری ،کتاب الجزیۃ ولھوادعۃ،باب امان النساء،رقم ۳۱۷۱،ج۲،ص۳۶۷)
دوسری یہ کہ فتح مکہ کے دن حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کے مکان پرغسل فرمایا اور کھانا نوش فرمایا پھر آٹھ رکعت نماز چاشت ادا فرمائی۔
(صحیح البخاری ،کتاب الغسل،باب التسترفی الغسل عند الناس،رقم ۲۸۰،ج۱،ص۱۱۵)