الہامی کیفیات سے معمور گلزارِنعت


الہامی کیفیات سے معمور گلزارِنعت
مولاناحفیظ الرحمٰن اشرفی ایم ،اے
علوم دینیہ میں مہارت،شعروسخن میں کمال کااشتراک بہت ہی کم حضرات کو نصیب ہواہے۔حضراتِ رومی،جامی،امام بوصیری اورامیرخسرو کے قافل�ۂ عشق ومحبت کے حدی خواں حضرت امام احمدرضا خاں بریلوی جنہیں قدرت نے ماےۂ نازفقیہہ ،بے مثال محدث ،دین متین کے بہی خواہ ،عظیم مفکر اور درباررسالت پناہ کے جادوبیاں نعت گو شاعر بنایاتھا۔
امام احمدرضا کی تقلید کرتے ہوئے عزیز محترم مولانا غلام ربانی فداؔ زیدہ مجدہ نے

اردو زبان وادب کے تمام اصناف سخن میں محبوب کبریا علیہ التحیۃ والثناء کی نعت اور اولیائے عظام کی منقبت کو اپنایا۔اوراس پرخار وادی کو کامیابی سے عبور کرتے ہوئے اس کے آداب کوبھی ،لحوظ رکھاہے۔غلام ربانی فداؔ بیک وقت ایک عالمِ دین بھی ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی،معروف شاعر اور ادیب بھی،بلندپایہ ادیب بھی اور صحافی بھی۔جو نعتِ رسول ہی کو اپنی زندگی بنائے ہوئے ہیں۔اورہندوستان میں حمدونعت کا پہلا ادبی رسالہ سہ ماہی جہانِ نعت کے روحِ رواں بھی ہیں۔ 

اس وقت فداؔ صاحب کااولین نعتیہ مجموعہ گلزارِنعت میرے سامنے ہے۔الہامی کیفیات سے معمور گلزارنعت کے کچھاشعار سے یہ انکشاف ہوتاہے کہ ان میں آمد ہے۔تصنع ومبالغہ آرائی سے دور ہے۔فداؔ صاحب نے عشقِ رسول ﷺ کے پرسوز وپرگداز کو صفحۂ قرطاس کے سپرد کیاہے۔ملاحظہ ہو؛

کتنے ہی نبی آئے دنیامیں مگریارو

ان سا توکسی کابھی رتبہ نہ بڑادیکھا

کیاان کی بڑائی کاہوذکر فداؔ ہم سے

بس بعدِ خدا ان کا رتبہ ہی بڑا دیکھا


من زار قبری وجبہ لہ شفاعتی ۔حدیثِ مصطفیٰ ﷺکی نوری کرن سے شرابور ہونے 

کے ہرخوش عقیدہ مسلمان کی تمنا ہوتی ہے کہ میں بھی گنبدِخضریٰ کی روپہلی چھاؤں میں چند لمحے گزاروں توپھر فداؔ صاحب اس کے تمنائی کیوں نہ ہوں۔

دیار طیبہ میں جاکرفداؔ عقیدت سے

تمنا دل میں ہے نعت نبی سنانے کی

روروکے کررہاہے فداؔ بس یہی دعا

یارب سفر مدینے کا ہوتادکھائی دے

رب ذوالجلال کواپنے محبوب سے اتنی محبت کہ محبوب سے منسوب شہر سے بھی محبت فرماتے ہوئے شہررسول ﷺ کی قسم کھاتاہے۔سنتِ خداکی پیروی کرتے ہوئے فداؔ صاحب بھی اپنے آقاومولیٰ کے شہرمقدس سے ان الفاظ میں محبت کااظہار فرماتے ہیں۔

اب تو آجائے یہاں پر موت ہم کواے خدا

مارکے دنیا کو ٹھوکرہم مدینے آئے ہیں

گلہائے رنگ وبو سے آراستہ ہے ایسا

طیبہ کا گلستاں بھی جنت سے کم نہیں ہے

مجھ کو محلاتِ جنت کی خواہش نہیں

شہرِطیبہ میں بس ایک گھرچاہئے

راہِ سلوک کی دشوارگزارراہوں سے گزرنے کے لیے تصورشیخ کی اہمیت اظہرمن الشمس ہے۔ فداؔ صاحب بھی اپنے پیرومرشدحضورشیخ الاسلام والمسلمین علامہ سیدمحمد مدنی میاں صاحب قبلہ کاتصور کرتے ہوئے یوں نغمہ سراہیں؛

خیالِ مدنی میاں جب بھی مجھ کو آتا ہے

شبیہہ ان کی تصور میں چھائی جاتی ہے

عزیز محترم مولاناغلام ربانی فداؔ اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں اپنے رضاوخوشنودی کے بلندترین مقام تک پہنچائے اور محبوب خداﷺ کی بارگاہِ اقدس میں شرفِ قبولیت سے مالامال کرے۔


شمالی کرناٹک کی قدیم دینی درسگاہ دارالعلوم قادریہ دانڈیلی کے فارغ التحصیل ہیں۔موصوف زمانۂ طالب علمی ہی میں بہت ذہین اور میری درسگاہ میں ممتاز تھے۔کلاس میں ایسے ایسے علمی سوالات کیاکرتے تھے کہ کبھی کبھی حیرت استعجاب کے ملے جلے جذبات سے مغلوب ہوکر سوچتاتھاکہ یہ مبتدی طالب علم اورایسے علمی سوالات؟

لیکن میں نے تصور میں بھی یہ نہ سوچاتھاکہ آگے چل کر یہی طالب علم خادمِ نعت ونعت گوشاعر بھی بن سکتاہے۔لیکن خالقِ دوجہاں اپنے محبوب ﷺ کی مدح سرائی کے لیے جسے منتخب فرمالے اس کاکیاکہنا۔ ایں سعادت بزوربازونیست

ہمارے ادارے کے فارغ التحصیل فداصاؔ حب فدائے مصطفیٰ ﷺ ہوکر شعروسخن کے ذریعہ عالمِ اسلام کو مصطفی جانِ رحمت ﷺ کافدائی بن کر زندگی گزارنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔خداکرے زورِقلم اورزیادہ

باری تعالیٰ اپنے محبوب کریمﷺ کے اس مداح کی اس مدح سرائی (گلزارِنعت) کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے (آمین) 
Exit mobile version