(۱)ہر ماں پر لازم ہے کہ اپنے بچوں سے پیار و محبت کرے اور ہر معاملہ میں ان کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ کرے اور ان کی دلجوئی و دل بستگی میں لگی رہے اور ان کی پرورش اور تربیت میں پوری پوری کوشش کرے۔
(۲)اگر ماں کے دودھ میں کوئی خرابی نہ ہو تو ماں اپنا دودھ اپنے بچوں کو پلائے کہ دودھ کا بچوں پر بڑا اثر پڑتا ہے۔
(۳)بچوں کی صفائی ستھرائی۔ ان کی تندرستی و سلامتی کا خاص طور پر دھیان رکھے۔
(۴)بچوں کو ہر قسم کے رنج و غم اور تکلیفوں سے بچاتی رہے۔
(۵)بے زبان بچے اپنی ضروریات بتا نہیں سکتے۔ اس لئے ماں کا فرض ہے کہ بچوں کے اشارات کو سمجھ کر ان کی ضروریات کو پوری کرتی رہے۔
(۶)بعض مائیں چلا کر یا بلی کی بولی بول کر یا سپاہی کا نام لے کر’ یا کوئی دھماکہ کرکے چھوٹے بچوں کو ڈرایا کرتی ہیں۔ یہ بہت ہی بری باتیں ہیں۔ بار بار ایسا کرنے سے بچوں کا دل کمزور ہو جاتا ہے اور وہ بڑے ہونے کے بعد ڈرپوک ہو جایا کرتے ہیں۔
(۷)بچے جب کچھ بولنے لگیں تو ماں کو چاہے کہ انہیں بار بار اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا نام سنائے ان کے سامنے بار بار کلمہ پڑھے۔ یہاں تک کہ وہ کلمہ پڑھنا سیکھ جائیں۔
(۸)جب بچے بچیاں تعلیم کے قابل ہو جائیں تو سب سے پہلے ان کو قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم دلائیں۔
(۹)بچوں کو اسلامی آداب و اخلاق اور دین و مذہب کی باتیں سکھائیں۔
(۱۰)اچھی باتوں کی رغبت دلائیں اور بری باتوں سے نفرت دلائیں۔
(۱۱)تعلیم و تربیت پر خاص طور پر توجہ کریں اور تربیت کا دھیان رکھیں۔ کیونکہ بچے سادہ ورق کے مانند ہوتے ہیں۔ سادہ کاغذ پر جو نقش و نگار بنائے جائیں وہ بن جاتے ہیں اور بچوں بچیوں کا سب سے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے۔ اس لئے ماں کی تعلیم و تربیت کا
بچوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ لہٰذا ہر ماں کا فرض منصبی ہے کہ بچوں کو اسلامی تہذیب و تمدن کے سانچے میں ڈھال کر ان کی بہترین تربیت کرے اگر ماں اپنے اس حق کو نہ ادا کرے گی تو گناہ گار ہوگی!
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(۱۲)جب بچہ یا بچی سات برس کے ہو جائیں تو ان کو طہارت اور وضو و غسل کا طریقہ سکھائیں اور نماز کی تعلیم دے کر ان کو نمازی بنائیں اور پاکی و ناپاکی اور حلال و حرام اور فرض و سنت وغیرہ کے مسائل ان کو بتائیں۔
(۱۳)خراب لڑکوں اور لڑکیوں کی صحبت’ ان کے ساتھ کھیلنے سے بچوں کو روکیں اور کھیل تماشوں کے دیکھنے سے’ناچ گانے’ سینما تھیٹر’ وغیرہ لغویات سے بچوں اور بچیوں کو خاص طور پر بچائیں۔
(۱۴)ہر ماں باپ کا فرض ہے کہ بچوں اور بچیوں کو ہر برے کاموں سے بچائیں اور ان کو اچھے کاموں کی رغبت دلائیں تاکہ بچے اور بچیاں اسلامی آداب و اخلاق کے پابند اور ایمانداری و دینداری کے جوہر سے آراستہ ہو جائیں اور صحیح معنوں میں مسلمان بن کر اسلامی زندگی بسر کریں۔
(۱۵)یہ بھی بچوں کا حق ہے کہ ان کی پیدائش کے ساتویں دن ماں باپ ان کا سر منڈا کر بالوں کے وزن کے بر ابرچاندی خیرات کریں اور بچے کا کوئی اچھا نام رکھیں۔ خبردار خبردار ہر گز ہر گز بچوں بچیوں کا کوئی برا نام نہ رکھیں۔
(۱۶)جب بچہ پیدا ہو تو فوراً ہی اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھیں تاکہ بچہ شیطان کے خلل سے محفوظ رہے اور چھوہارہ وغیرہ کوئی میٹھی چیز چبا کر اس کے منہ میں ڈال دیں تاکہ بچہ شیریں زبان اور بااخلاق ہو۔
(۱۷)نیا میوہ’ نیا پھل’ پہلے بچوں کو کھلائیں پھر خود کھائیں کہ بچے بھی تازہ پھل ہیں۔ نئے پھل کو نیا پھل دینا اچھا ہے۔
(۱۸)چند بچے بچیاں ہوں تو جو چیزیں دیں سب کو یکساں اور برابردیں۔ ہر گز کمی بیشی نہ کریں۔ ورنہ بچوں کی حق تلفی ہوگی۔ بچیوں کو ہر چیز بچوں کے برابر ہی دیں۔ بلکہ بچیوں کی دلجوئی و دلداری کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ کیونکہ بچیوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے۔
(۱۹)لڑکیوں کو لباس اور زیور سے آراستہ اور بناؤ سنگھار کے ساتھ رکھیں تاکہ لوگ رغبت کے ساتھ نکاح کا پیغام دیں۔ ہاں اس کا خیال رکھیں کہ وہ زیورات پہن کر باہر نہ نکلیں کہ چوروں ڈاکوؤں سے جان کا خطرہ ہے۔ بچیوں کو بالا خانوں پر نہ رہنے دیں کہ اس میں بے حیائی کا خطرہ ہے۔
(۲۰)حتی الامکان بارہ برس کی عمر میں بچیوں کی شادی کردیں مگر خبردار ہر گز ہر گز کسی بددین یا بد مذہب مثلاً رافضی’ خارجی’ وہابی’ غیر مقلد وغیرہ کے یہاں لڑکوں یا لڑکیوں کی شادی نہ کریں ورنہ اولاد کی بہت بڑی حق تلفی ہوگی اور ماں باپ کے سروں پر بہت بڑے گناہ کا بوجھ ہوگا اور وہ عذاب جہنم کے حقدار ہوں گے۔ اسی طرح فاسقوں’ فاجروں’ شرابیوں’ بدکاروں’ حرام کی کمائی کھانے والوں’ سود خوروں اور ناجائز کام دھندا کرنے والوں کے یہاں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں نہ کریں اور رشتہ تلاش کرنے میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مذہب اہل سنت اور دین دار ہونے کا خاص طور پر دھیان رکھیں۔