اگر زکوٰۃ پیشگی ادا کرنی ہوتو دوسرے شہر بھیجنا مطلقاً جائز ہے اور اگر سال پورا ہوچکا ہے تو دوسرے شہر بھیجنا مکروہ ،ہاں اگر وہاں کو ئی رشتہ دارہو یاکوئی شخص زیادہ
محتاج ہو یا کوئی نیک متقی شخص ہو یا وہاں بھیجنے میں مسلمانوں کا زیادہ فائدہ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔درمختا ر میں ہے :”زکوٰۃ کو دوسری جگہ منتقل کرنا مکروہ ہے ،ہاں ایسی صورت میں مکروہ نہیں جب دوسری جگہ کوئی رشتہ دار ہو یا کوئی زیادہ محتاج ہو یا نیک متقی شخص ہو یا اس میں مسلمانوں کا زیادہ فائدہ ہو یا سال سے پہلے جلدی زکوٰۃ دینا چاہتا ہو۔”
(ماخوذاز الدرالمختارو در المحتار ، کتاب الزکوٰۃ ، باب المصرف مطلب فی الحوائج ج۳،ص۲۵۵)
بینک سے زکوٰۃ کی کٹوتی
بینک سے زکوٰۃ کی کٹوتی کی صورت میں ادائیگی زکوٰۃ کی شرائط پوری نہیں ہوپاتیں مثلاً مالک بنانا ،کہ زیادہ روپیہ ایسی جگہ خرچ کیا جاتا ہے جہاں کوئی مالک نہیں ہوتا،لہٰذا زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔(وقار الفتاویٰ ،ج۲،ص۴۱۴ ملخصاً) لہٰذا شرعی احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اپنی زکوٰۃ شریعت کے مطابق خُود ادا کی جائے۔