قبر کا بھیانک منظر!
ایک بارامیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا ( کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم )زِیارتِ قُبُور کے لئے کوفہ کے قَبرِ ستان تشریف لے گئے۔
وہاں ایک تازہ قَبرپر نظر پڑی ۔ آپ کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو اُس کے حالات معلوم کرنے کی خواہِش ہوئی ۔چُنانچِہ بارگاہِ خُداوندی عَزَّوَجَلَّ میں عَرض گُزار ہوئے، ”یا اللہ عَزَّوَجَلَّ !اِس مَیِّت کے حالات مجھ پر مُنْکَشِف (یعنی ظاہِر ) فرما۔” اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں آپ کی اِلتِجا فوراً مَسْمُوع ہوئی (یعنی سُنی گئی )اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ کے اور اُس مُردے کے درمیان جتنے پردَے حائل تھے تمام اٹھادئیے گئے۔اب ایک قَبر کا بھیانک منظر آپ کے سامنے تھا۔کیا دیکھتے ہیں کہ مُردہ آگ کی لَپیٹ میں ہے اور رو رو کر آپ کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے اِس طرح فریاد کررہا ہے:
یَاعَلِیُّ! اَنَا غَرِیْقٌ فِی النَّارِ وَحَرِیْقٌ فِی النَّارِ۔
یعنی یاعلی ! کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم میں آگ میں ڈوبا ہواہوں اور آگ میں جل رہا ہوں ۔ قَبْرکے دَہشتناک منظر اور مُردے کی درد نا ک پُکارنے حیدرِ کرّار کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو بے قرار کردیا۔ آپ کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اپنے رَحمت والے پروَردگارعَزَّوَجَلَّ کے دربار میں ہاتھ اُٹھادئیے اور نہایت ہی عاجِزی کے ساتھ اُس مَیِّت کی بخشِش کیلئے درخواست پیش کی ۔غیب سے آواز آئی ، ” اے علی(کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) !آپ (کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) اِس کی
سِفارش نہ ہی فرمائیں کیوں کہ روزے رکھنے کے باوُجُودیہ شخص رَمَضانُ الْمُبارَک کی بے حُرمتی کرتا،رَمَضانُ الْمُبارَک میں بھی گُناہوں سے بازنہ آتا تھا۔دن کو روزے تَو رکھ لیتا مگر راتوں کو گُناہوں میں مُبْتَلارہتا تھا۔مَولائے کائِنا ت علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم یہ سُن کر اور بھی رنجیدہ ہوگئے اور سَجدے میں گِر کر رو رو کر عرض کرنے لگے ، یا اللہ عَزَّوَجَلَّ !میری لاج تیرے ہاتھ میں ہے،اِس بندے نے بڑی اُمّید کے ساتھ مجھے پُکارا ہے ، میرے مالِک عَزَّوَجَلَّ ! تُو مجھے اِس کے آگے رُسوا نہ فرما، اِ س کی بے بَسی پر رَحم فرمادے اور اِس بیچارے کو بَخش دے ۔حضرت علی کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم رو رو کر مُناجات کررہے تھے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت کا دریا جوش میں آ گیا اور نِدا آئی ، اے علی !(کَرَّمَ اللہُ تعالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم) ہم نے تمہاری شِکَستہ دِلی کے سَبَب اِسے بخش دیا۔چُنانچِہ اُس مُردے پر سے عذاب اُٹھا لیا گیا۔ (انیسُ الْواعِظین ص۲۵)
کیوں نہ مُشکِل کُشا کہوں تم کو! تم نے بگڑی مِری بنائی ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد