تراویح کی جماعت بدعت حَسنہ ہے
اللہ کے محبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود بھی تراویح ادا فرمائی اور اس کوخوب پسند بھی فرمایا : چُنانچہِ صاحِبِ قراٰن، مدینے کے سلطان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے ، جو ایمان و طلبِ ثواب کے سبب سے رَمَضان میں قِیام کرے اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(یعنی صغیرہ گناہ) پھر اس اندیشے کی وجہ سے ترک فرمائی کہ کہیں امّت پر (تراویح)فرض نہ کر دی جائے ۔ پھرامیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (اپنے دورِ خِلافت میں) ماہِ رَمَضان المُبَارَک کی ایک رات مسجد میں دیکھا کہ لوگ جُدا جُدا انداز پر (تراویح) اداکر رہے ہیں ، کوئی اکیلا تو کچھ حضرات کسی کی اقِتدا ء میں پڑھ رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے فرمایا:میں مناسِب خیال کرتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں ۔ لھٰذا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سِیدُنا اُبَیِّ ابْنِ کَعْب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوسب کا امام بنا دیا ۔ پھر جب دوسری رات تشریف لائے تو اوردیکھاکہ لوگ باجماعت (تراویح) ادا کر رہے ہیں( توبہت خوش ہوئے اور ) فرمایا ، نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ۔ یعنی” یہ اچھی بدعت ہے”۔
(صحیح بخاری ج۱ص۶۵۸حدیث۲۰۱۰)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! محبوبِ ر بِّ ذُوالجَلال عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ہمارا کتنا خیال ہے ! محض اِس خوف سے تراویح پر ہمیشگی نہ فرمائی کہ کہیں اُمّت پر فرض نہ کر دی جائے۔ اِس حدیثِ پاک سے بعض وَساوِس کا علا ج بھی
ہو گیا۔مثَلاً تراویح کی باقاعِدہ جماعت سرکارِ نامدا رصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی جاری فرما سکتے تھے مگر نہ فرمائی اور یوں اسلام میں اچّھے اچّھے طریقے رائج کرنے کا اپنے غلاموں کو موقع فراہم کیا ۔ جو کام شاہِ خیرُ الانام صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہیں کیا وہ کام سیّدُِنا فاروقِ اعظم رضی اﷲتعا لیٰ عنہ نے مَحض اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ سرکارِ عالمِ مدارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تا قِیا مت ایسے اچّھے اچّھے کام جاری کرتے رہنے کی اپنی حیاتِ ظاہِری میں ہی اجازت مَرحَمت فرمادی تھی۔چنانچِہ حُضُورِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ بنی آدم،رسولِ مُحتَشَم،شافِعِ اُمَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مُعظَّم ہے، ”جو کوئی اسلام میں اچّھا طریقہ جاری کرے اُس کو اس کا ثواب ملے گااور اُس کا بھی جو (لوگ) اِس کے بعداُس پر عمل کریں گے اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص اِسلام میں بُرا طریقہ جار ی کرے اُس پر اِس کا گناہ بھی ہے اور ان (لوگوں)کا بھی جو اِس کے بعد اِس پر عمل کریں اور اُن کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔
(صحیح مُسلم ص۱۴۳۸، الحدیث ۱۰۱۷)