حضور تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دربار سلاطین اور بادشاہوں جیسا دربار نہ تھا۔یہ دربار تخت و تاج، نقیب و دربان، پہرہ دار اورباڈی گارڈ وغیرہ کے تکلفات سے قطعاً بے نیاز تھا۔مسجد نبوی کے صحن میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایک چھوٹا سا مٹی کا چبوترہ بنا دیا تھا یہی تاجدار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا وہ تخت شاہی تھا جس پر ایک چٹائی بچھا کر دونوں عالم کے تاجدار اور شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رونق افروز ہوتے تھے مگر اس سادگی کے باوجود جلالِ نبوت سے ہر شخص اس دربار میں پیکر تصویر نظر آتا تھا۔ بخاری شریف وغیرہ کی روایات میں آیا ہے کہ لوگ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں بیٹھتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں کوئی ذرا جنبش نہیں کرتا تھا۔(1)(بخاری ج۱ ص۳۹۸)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اس دربار میں سب سے پہلے اہل حاجت کی طرف تو جہ فرماتے اور سب کی درخواستوں کو سن کر ان کی حاجت روائی فرماتے۔ قبائل کے نمائندوں سے ملاقاتیں فرماتے تمام حاضرین کمال ادب سے سر جھکائے رہتے اور جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کچھ ارشاد فرماتے تو مجلس پر سناٹا چھا جاتا اور سب لوگ ہمہ تن گوش ہو کر شہنشاہ کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمان نبوت کو سنتے۔
(بخاری ج۱ ص۳۸۰ شروط فی الجہاد)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں آنے والوں کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی امیر و فقیر شہری اور بدوی سب قسم کے لوگ حاضر دربار ہوتے اور اپنے اپنے لہجوں میں سوال و جواب کرتے کوئی شخص اگر بولتا تو خواہ وہ کتنا ہی غریب و مسکین کیوں نہ ہو مگر دوسرا شخص اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا امیر کبیر ہو اس کی بات کاٹ کر بول نہیں سکتا تھا۔ سبحان اﷲ! ؎
وہ عادل جس کے میزان عدالت میں برابر ہیں
غبار مسکنت ہو یا وقارِ تاجِ سلطانی
جو لوگ سوال و جواب میں حد سے زیادہ بڑھ جاتے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کمال حلم سے برداشت فرماتے اور سب کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم و تلقین اور مواعظ ونصائح فرماتے رہتے اور اپنے مخصوص اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ بھی فرماتے رہتے اور صلح و جنگ اور امت کے نظام و انتظام کے بارے میں ضروری احکام بھی صادر فرمایا کرتے تھے۔ اسی دربار میں آپ مقدمات کا فیصلہ بھی فرماتے تھے۔