خاتم النبیین

    لفظ خاتم ختم سے بناہے جس کے لغوی معنی ہیں مہر لگانا ۔اصطلاح میں اس کے معنی ہیں تمام کرنا، ختم کرنا، بند کرنا،کیونکہ مہر یا تو مضمون کے آخر پر لگتی ہے جس سے مضمون بند ہوجاتا ہے یا پارسل بند ہونے پر لگتی ہے جب نہ کوئی شے اس میں داخل ہوسکے نہ اس سے خارج ،اسی لئے تمام ہونے کو ختم کہا جاتا ہے قرآن شریف میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ چنانچہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
 (1) خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمۡ
اللہ تعالیٰ نے ان کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ۔(پ1،البقرۃ:7)
(2) اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤی اَفْوَاہِہِمْ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمْ وَ تَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوۡا یَکْسِبُوۡنَ ﴿۶۵﴾
آج ہم ان کے منہ پرمہر لگادیں گے اور ہم سے ان کے ہاتھ بولیں گے او ران کے پاؤں گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے ۔(پ23،یٰسۤ:65)
(3) فَاِنۡ یَّشَاِ اللہُ یَخْتِمْ عَلٰی قَلْبِکَ
تو اگر اللہ چاہے توآپ کے دل پر رحمت وحفاظت کی مہر لگادے ۔(پ25،الشورٰی:24)
یُسْقَوْنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخْتُوۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾خِتٰمُہٗ مِسْکٌ ؕ
نتھاری شراب پلائے جائیں گے جو مہر کی ہوئی ہے اس کی مہر مشک پر ہے ۔(پ۳۰،المطففین:۲۵)
    ان جیسی تمام آیتوں میں ختم بمعنی مہر استعمال فرمایا گیا ہے کہ جب کفار کے دل وکان پر مہر لگ گئی تونہ باہر سے وہاں ایمان داخل ہونہ وہاں سے کفر باہر نکلے یوں ہی جنت میں شَرَابًاطَہُوْرًا ایسے بر تنوں سے پلائی جائے گی جن پر حفاظت کے لئے
اور یاد کرو ہمارے بندہ ایوب کو ۔(پ23،ص:41)
مہر ہے تا کہ کوئی توڑ کرنہ باہر سے کوئی آمیز ش کر سکے نہ اندر سے کچھ نکال سکے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ
محمد تمہارے مردو ں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے ۔(پ22،الاحزاب:40)
    اس جگہ خاتم عرفی معنی میں استعمال ہوا یعنی آخری اور پچھلا ۔ لہٰذا اب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنانا ممکن ہے۔ اس معنی کی تائید حسب ذیل آیات سے ہوتی ہے اوران آیتوں سے معلوم ہوتاہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔
(1) اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ  (پ6،المآئدۃ:3)
آج میں نے تمہارے لئے دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔
(2) ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ
پھر تشریف لائیں تمہارے پا س وہ رسول جو تمہاری کتا بوں کی تصدیق کریں توتم سب نبی ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا۔(پ3،ال عمرٰن:81)
(3) وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنۡ قَبْلِہِ الرُّسُلُ
(4) فَکَیۡفَ اِذَا جِئْنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ ۭبِشَہِیۡدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیۡدًا﴿ؕؔ۴۱﴾
تو کیسی ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اوراے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ ونگہبان لائیں گے ۔(پ5،النساء:41)
    ان آیتوں سے تین باتیں معلوم ہوئیں ۔ ایک یہ کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا دین مکمل ہے اور دین کے مکمل ہوچکنے کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں۔ دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام نبیوں کی تصدیق کرتے ہیں کسی نبی کی بشارت یا خوشخبری نہیں دیتے اور پچھلے نبی کی تصدیق ہوتی ہے آئندہ کی بشارت اگر آپ کے بعد کوئی اور نبی ہوتا تو اس کے بشیر بھی ہوتے۔ تیسرے یہ کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سارے پیغمبروں اور ان کی امتوں پر گواہ ہیں لیکن کوئی نبی حضور کا گواہ یا حضو رکی امت کا گواہ نہیں جس سے معلوم ہوا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ چوتھے یہ کہ سارے نبی آپ سے پہلے گزرچکے کوئی باقی نہیں رہا ۔
     اعتراض: خاتم النبیین کے معنی ہیں نبیوں سے افضل جیسے کہا کرتے ہیں فلاں شخص خَاتَمُ الشُّعَرَآءِ یا خَاتَمُ الْمُحَدِّثِیْنَ ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ شاعروں یا محدثوں میں آخری شاعر یاآخری محدث ہے بلکہ محدثوں میں افضل ہے۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا: ” اَنْتَ خَاتَمُ المُھَاجِرِیْنَ” (فضائل الصحابۃ لابن حنبل،باب فضائل ابی الفضل العباس بن عبدالمطلب، الحدیث۱۸۱۲، ج۲،ص۹۴۱،مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)’
‘تم مہاجرین میں خاتم یعنی افضل ہو۔” نہ یہ معنی کہ آخری مہاجر ہو کیونکہ ہجرت تو قیامت تک جاری رہے گی لہٰذاآپ کے بعد نبی آسکتے ہیں،ہاں آپ سب سے افضل ہیں اورخاتم النبیین کے معنی یہی ہیں ۔
    جواب :خاتم ختم سے بنا ہے جس کے معنی افضل نہیں ورنہ
خَتَمَ اللہُ عَلَی قُلُوْبِہِمْ                            (پ 1،البقرۃ:7) کے معنی یہ ہوتے کہ اللہ نے کافروں کے دل افضل کردیئے۔ جب ختم میں افضلیت کے معنی نہیں تو خاتم میں جوا س سے مشتق ہے یہ معنی کہا ں سے آگئے لوگو ں کا کسی کو خاتم الشعراء کہنا مبالغہ ہوتا ہے گویا اب اس شان کا شاعر نہ آوے گا کہا کرتے ہیں فلاں پر شعر گوئی ختم ہوگئی ۔ رب تعالیٰ کا کلام مبالغہ اور جھوٹ سے پاک ہے ، حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان مہاجرین میں جنہوں نے مکہ مکر مہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی آخری مہاجرہی کیونکہ ان کی ہجرت فتح مکہ کے دن ہوئی جس کے بعد یہ ہجرت بند ہوگئی لہٰذا وہاں بھی خاتم آخر کے معنی میں ہے ۔
    سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْیَوْمِ آج کے بعد اب مکہ سے ہجرت نہ ہوگی ،اگر وہاں خاتم کے معنی افضل ہوں تو لازم آئے گا کہ حضر ت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بھی افضل ہوجاویں کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم بھی مہاجرہیں ۔
    اعتراض: اگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کیوں آپ کے بعد آویں گے ۔آخری نبی کے بعد کوئی نبی نہ چاہیے ؟
    جواب: آخر ی نبی کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے زمانہ یا آپ کے بعد کوئی نبی باقی نہ رہے۔ آخری اولاد کے معنی یہ ہیں کہ پھر کوئی بچہ پیدا نہ ہو، نہ یہ کہ پچھلے سب مرجاویں نیز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا اب نبوت کی حیثیت سے نہ ہوگا بلکہ حضور کے امتی کی حیثیت سے یعنی وہ اپنے وقت کے نبی ہیں اور اس وقت کے امتی۔
جیسے کوئی جج دوسرے جج کی کچہری میں گواہی دینے کے لئے جاوے تو وہ اگرچہ اپنے علاقہ میں جج ہے مگر اس علاقہ میں گواہ عیسیٰ علیہ السلام محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے علاقہ میں ان کے دین کی نصرت ومدد کرنے تشریف لاویں گے ۔
    نوٹ ضروری:جب ختم بمعنی مہر ہوتا ہے تو اس کے بعد علٰی ضرورہوتا ہے خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ جیسے کہ ہماری پیش کر دہ آیات سے ظاہر ہے اور جب ختم بمعنی آخر ہونا یا تمام کرنا ہوگا تو علٰی کی ضرورت نہیں خاتم النبین میں علی نہ ظاہر ہے نہ پوشیدہلہٰذا یہاں آخری نبی مراد ہیں ۔
     نوٹ ضروری : خاتم النبیین کے معنی ”آخری نبی ”خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائے اور اس پر امت کا اجماع رہا اب آخر ی زمانہ میں مولوی محمد قاسم دیوبندی اور مرزا غلام احمد قادیانی نے اس کے نئے معنے ایجاد کئے یعنی اصلی نبی، افضل نبی اور ان اجماعی معنی کاانکار کیا اسی لئے ان دونوں پر عرب وعجم کے علماء نے فتوی کفردیا اور جیسے قرآن مجیدکے الفاظ کا انکار کفر ہے ویسے ہی اس کے اجماعی معنی کاانکار بھی کفر ہے اگر کوئی کہے کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ                               (پ 1،البقرۃ:43) پر میرا ایمان ہے یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے ہیں مگر صلوٰۃ کے معنی نماز نہیں بلکہ اس کے معنے دعاہیں ۔ ہاں نماز بھی اس معنی میں داخل ہے اور زکوٰۃ کے معنی صدقہ واجبہ نہیں بلکہ اس کے معنی پاکی ہے ہا ں صدقہ وخیرات بھی اس میں داخل ہے تو وہ کافر ہے کیونکہ اگر چہ وہ قرآن کے لفظوں کا انکار نہیں کرتا مگر متواتر معنی کا انکار کرتاہے اس صورت میں خواہ نماز کو فر ض ہی مانے مگر جب قرآن میں الصلوٰۃ کے معنی نماز نہیں کرتا تو وہ کافر ہے ۔
    نیز نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سارے صفات کو ماننا ایمان کے لئے
ضروری ہے جیسے کہ حضور نبی ہیں، رسول ہیں ،شفیع المذنبین ہیں اور رحمت للعالمین ہیں ایسے ہی آپ خاتم النبیین بمعنی آخری نبی ہیں جیسے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا ماننا ضروری ہے اور نبوت کے وہی معنی ہیں جو مسلمان مانتے ہیں ایسے ہی آپ کو خاتم النبیّین اسی معنی سے ماننا ضروری ہے جو مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ نیز جیسے لا الہ الا اللہ میں الٰہ نکرہ ہے نفی کے بعد تو معنی یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی طر ح کا کوئی معبود نہیں، نہ اصلی نہ ظلی،نہ بروزی نہ مراتی نہ مذاتی ۔ ایسے ہی ”لانبی بعدی” میں نبی نکرہ نفی کے بعد ہے جس کے معنی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی طرح کا نبی اصلی ، نقلی ، بروزی وغیر ہ آنا ایسا ہی ناممکن ہے جیسا دوسرا الٰہ ہونا ،جو کوئی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا امکان بھی مانے ، وہ بھی کافر ہے لہٰذا دیوبندی اور قادیانی اس ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے دونوں مرتد ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا اے صحابیو! اگر ایسا ایمان لائیں جیسا تمہارا ایمان ہے تو ہدایت پاجائینگے (پ۱،البقرۃ:۱۳۷) اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ مانا لہٰذا نبی ماننا گمراہی ہے ۔
Exit mobile version