جب مومن کو ایمان کا حکم دیاجائے یانبی کو تقویٰ کا حکم ہو تو اس سے مراد ایمان اور تقویٰ پر قائم رہنا ہوگا کیونکہ وہاں ایمان وتقویٰ تو پہلے ہی موجو د ہے اور تحصیل حاصل محال ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے :
(1) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا
اے ایمان والو ! ایمان لاؤ یعنی ایمان پر قائم رہو۔(پ5،النسآء:136)
(2) یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللہَ
اے نبی اللہ سے ڈرو یعنی اللہ سے ڈرے جاؤ ۔(پ21،الاحزاب:1)
(3) اٰمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ
اے مومنو! اللہ ورسول پر ایمان لاؤ یعنی ایمان پر قائم رہو۔(پ27،الحدید:7)
ان جیسی تمام آیات میں ایمان وتقویٰ پر استقامت مراد ہے تا کہ ترجمہ درست ہو ، نیز مسلمانوں کو احکام عمل کرنے کے لئے دیئے جاتے ہیں او رنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو احکام اس لئے دیئے جاتے ہیں تا کہ وہ عمل کرائیں۔ جیسے جہاز کے مسافر پار اترنے کے لئے جہاز میں سوار ہوتے ہیں اور کپتا ن پار اتارنے کے لئے وہاں بیٹھتا ہے اسی لئے مسافر کرایہ دے کر اور کپتا ن تنخواہ لے کر سوار ہوتے ہیں ۔