اِس آیتِ مُقدَّسہ کے اِبْتِدائی حِصّہ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ کے تَحت مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان تَفسِیْرِ نعیمی میں فرماتے ہیں:” رَمَضَان ” یا تَو”رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ” کی طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نام ہے، چُونکہ اِس مہینہ میں دِن رات اللہ عز وَجَلَّ کی عِبادت ہوتی ہے ۔ لہٰذا اِسے شَہرِ رَمَضان یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا مہینہ کہا جاتا ہے۔جیسے مسجِد وکعبہ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا
فرمانِ مصطَفےٰ :(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم) جس نے مجھ پر دس مرتبہ دُرُود پاک پڑھا اللہ تعالیٰ اُس پر سو رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔
گھر کہتے ہیں کہ وہاں اللہ عز وَجَلَّ کے ہی کام ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی رَمضَان اللہ عز وَجَلَّ کا مہینہ ہے کہ اِس مہینے میں اللہ عز وَجَلَّ کے ہی کام ہوتے ہیں۔رَوزہ تَراویح وغیرہ تَو ہیں ہی اللہ عز وَجَلَّ کے۔ مگربَحَالتِ روزہ جو جائِز نوکری اور جائِز تِجارت وغیرہ کی جاتی ہے وہ بھی اللہ عز وَجَلَّ کے کام قرار پاتے ہیں ۔اِس لئے اِس ماہ کا نام رَمَضَان یعنی اللہ عز وَجَلَّ کا مہینہ ہے۔یا یہ ”رَمْضَاء ٌ ” سے مُشْتَق ہے ۔ رَمْضَاءٌ موسِمِ خَرِیف کی بارِش کو کہتے ہیں،جس سے زمین دُھل جاتی ہے اور”رَبِیع” کی فَصْل خُوب ہوتی ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
چُونکہ یہ مہینہ بھی دِل کے گَر د وغُبار دھودیتا ہے اور اس سے اَعمال کی کَھیتی ہَری بَھری رہتی ہے اِس لئے اِسے رَمَضَان کہتے ہیں۔ ”سَاوَن” میں روزانہ بارِشیں چاہئیں اور ”بھادَوں” میں چار ۔ پھر ”اَساڑ’ ‘ میں ایک ۔اِس ایک سے کھیتیاں پَک جاتی ہیں۔تَو اِسی طرح گیارہ مہینے برابر نیکیاں کی جاتی رَہیں۔پھر رَمَضَان کے روزوں نے اِن نیکیوں کی کھیتی کو پَکا دیا ۔ یا یہ ” رَمْض ” سے بنا جس کے معنٰی ہیں”گرمی یاجلنا ۔ ” چُونکہ اِس میں مُسلمان بُھوک پیاس کی تَپش برداشت کرتے ہیں یا یہ گناہوں کو جَلا ڈالتا ہے،اِس لئے اِسے رَمَضَان کہاجاتا ہے۔(کنز العُمّال کی آٹھویں جلد کے صفحہ نمبر دو سوسَتَّرَہ پر حضرتِ سَیّدُنا اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ نبیِّ کریم ، رءُ وْفٌ رّحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا، ”اس مہینے کانام رَمَضَان رکھا گیا ہے کیونکہ یہ گنا ہو ں کوجلادیتا ہے۔ ” )
فرمانِ مصطَفےٰ :(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم) تم جہاں بھی ہو مجھ پر دُرُود پڑھوکہ تمہارا دُرُود مجھ تک پہنچتا ہے ۔