مسافر کی نماز کا بیان

    جو شخص تقریباً ۹۲ کلومیٹر کی دوری کا سفر کا ارادہ کرکے گھر سے نکلا اور اپنی بستی سے باہر چلا گیا۔ تو شریعت میں یہ شخص مسافر ہوگیا۔ اب اس پر واجب ہوگیا کہ قصر کرے یعنی ظہر’ عصر اور عشاء چار رکعت والی فرض نمازوں کو دو ہی رکعت پڑھے۔ کیونکہ اس کے حق
میں دو ہی رکعت پوری نماز ہے۔     (الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،ج۲،ص۷۲۲،۷۲۶)
مسئلہ:۔اگر مسافر نے قصداً چار رکعت پڑھی اور دوپر قعدہ کیا تو فرض ادا ہو گیا اور آخری دو رکعتیں نفل ہوگئیں مگر گنہگار ہوا اگر دو رکعت پر قعدہ نہیں کیا تو فرض ادا نہ ہوا۔
    (الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،ج۲،ص۷۳۳۔۷۳۴)
مسئلہ:۔مسافر جب تک کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت نہ کرے یا اپنی بستی میں نہ پہنچ جائے قصر کرتا رہے گا۔
مسئلہ:۔مسافر اگر مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھے تو چار رکعت پوری پڑھے قصر نہ کرے۔        (الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲،ص۷۳۶)
مسئلہ:۔مقیم اگر مسافر امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام مسافر ہونے کی وجہ سے دو ہی رکعت پر سلام پھیر دے گا اب مقیم مقتدیوں کو چاہے کہ امام کے سلام پھیر دینے کے بعد اپنی باقی دو رکعتیں پڑھیں اور ان دونوں رکعتوں میں قرأت نہ کریں بلکہ سورۂ فاتحہ پڑھنے کی مقدار تک چپ چاپ کھڑے رہیں۔
        (الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،ج۲،ص۷۳۵)
مسئلہ:۔فجر و مغرب اور وتر میں قصر نہیں۔
مسئلہ:۔سنتوں میں قصر نہیں ہے اگر موقع ہو تو پوری پڑھیں ورنہ معاف ہیں۔
    (ردالمحتارودرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،ج۲،ص۷۳۷)
مسئلہ:۔مسافر اپنی بستی سے باہر نکلتے ہی قصر شروع کردے گا اور جب تک اپنی بستی میں داخل نہ ہو جائے یا کسی بستی میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرے برابر قصر ہی کرتا رہے گا۔     (الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،ج۲،ص۷۲۶۔۷۲۸)
Exit mobile version