اسی طرح کی ایک رِوایَت میں ہے کہ عِشْقِ رسول سے سرشار ایک اَنصاری صَحابیہ جب گھر سے نِکَل کر میدانِ جنگ کی طرف روانہ ہوئیں تو راستے میں انہیں دِل لرزا دینے والے مَناظِر کا سامنا کرنا پڑا، کہیں بھائی اور بیٹےکے لاشے کو دیکھا تو کہیں شوہَر اور باپ کی مَیِّت پڑی دیکھی مگر وہ عاشِقہ صَحابیہ بغیر پروا کیے آگے بڑھتی جاتیں اور یہی پوچھتی جاتیں: میرے مَحْبُوب، میرے آقا و مولا کیسے ہیں؟
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےبخیرو عَافِـیَّت ہونے کی خَبَر ملنے کے باوُجُود وہ
رُکی نہیں بلکہ آگے بڑھتی گئیں اور آخِر کار جب رُخِ اَنْوَر پر نَظَر پڑی تو بے قَرار ہو کر فَرْطِ مَحبَّت میں دامَنِ مصطفےٰ کو تھام لیا اور عَرْض کرنے لگیں: اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان !جب آپ سَلامَت ہیں تو مجھے کسی اور کی کوئی پروا نہیں ہے۔ 1
تسلی ہے پناہِ بیکساں زِندہ سَلامَت ہے
کوئی پَروا نہیں سارا جَہاں زندہ سَلامَت ہے2
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
……… المواهب اللدنیه ، المقصد السابع، الفصل الاول فی وجوب محبته ، ۲/۴۸۰مفهوماً
2 ……… جنتی زیور، ص ۵۰۵