جب تک اسلام عرب کی زمین تک محدود رہا۔ اس وقت تک مسلمانوں کا معاشرہ اور ان کا طرز زندگی بالکل ہی سیدھا سادہ اور ہر قسم کی رسومات اور بدعات و خرافات سے پاک صاف رہا۔ لیکن جب اسلام عرب سے باہر دوسرے ملکوں میں پہنچا تو دوسری قوموں اور دوسرے مذہب والوں کے میل جول اور ان کے ماحول کا اسلامی معاشرہ اور مسلمانوں کے طریقہ زندگی پر بہت زیادہ اثر پڑا اور کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی بہت سی غلط سلط اور من گھڑت رسموں کا مسلمانوں پر ایسا جارحانہ حملہ ہوا، اور مسلمان ان مشرکانہ رسموں میں اس قدر ملوث ہو گئے کہ اسلامی معاشرہ کا چہرہ مسخ ہو گیا اور مسلمان رسم و رواج کی بلاؤں میں گرفتار ہو کر خیرالقرون کی سیدھی سادھی اسلامی طرز زندگی سے بہت دور ہوگئے۔ چنانچہ خوشی غمی’ پیدائش و موت’ ختنہ’ شادی بیاہ’ وغیرہ مسلمانوں کی جملہ تقریبات بلکہ مسلمانوں کی زندگی و موت کے ہر مرحلہ اور موڑ پر قسم قسم کی رسموں کی فوجوں کا اس طرح عمل دخل ہوگیا ہے کہ مسلمان اپنی تقریبات کو باپ داداؤں کی ان روایتی رسموں سے الگ کر ہی نہیں سکتے اور یہ حال ہوگیا ہے کہ ؎
یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی
ہمارے یہاں مسلمانوں کی تقریبات میں جن رسموں کا رواج پڑ گیا ہے ان کے بارے میں تین قسم کے مکتبِ خیال کے لوگ ہیں جو اپنے اپنے مسلک کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔
اول لال’ پیلے’ ہرے رنگ کے لباسوں والے گیسو دراز قسم کے رنگین مزاج باباؤں کا گروہ جو تصوف کا لبادہ اوڑھے ہوئے صوفی بنے پھرتے ہیں ان حقیقت و معرفت کے ٹھیکیداروں نے تو تمام خرافات اور خلاف شریعت رسومات کو جائز ٹھہرا رکھا ہے۔ یہاں تک کہ ڈھولک اور طبلہ کی تھاپ’ اور ہار مونیم اور سارنگی کے راگ پر ان لوگوں کو معرفت کی معراج حاصل ہوتی ہے۔ ان لوگوں نے اپنی جہالت سے مسلم معاشرہ کو تہس نہس’ اور اسلام کے مقدس چہرے کو خرافات و بدعات اور خلاف شریعت رسومات کے داغ دھبوں سے مسخ کر ڈالا ہے۔ یہ لوگ بلا شبہ خطاکار ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان لوگوں کی صحبت’ اور ان لوگوں کی پیروی سے ہمیشہ بچتے رہیں۔
دوم وہابیوں دیوبندیوں کا فرقہ ہے جنہوں نے اصلاح کے نام سے اسلامی معاشرہ اور دین اسلام کی حجامت بنا ڈالی ہے۔ ان لوگوں نے یہ ظلم کیا ہے کہ مسلم معاشرہ کی جائز و ناجائز تمام رسومات کو حرام و بدعت بلکہ کفر و شرک ٹھہرا دیا ہے۔ اور یہ لوگ یہاں تک حد سے بڑھ گئے کہ دولھا کے سر پر سہرا باندھنے کو کفر و شرک لکھ دیا ہے اور زیب و زینت کے لیے دیواروں پر دیوار گیری اور چھتوں میں چھت گیری لگانے کو بدعت اور حرام لکھ مارا۔ اور دوسری بہت سی جائز چیزوں مثلاََ قبروں پر چادر ڈالنے’ بزرگوں کی نیازو فاتحہ دلانے ‘ مردوں کا تیجہ’ چالیسواں کرنے کو بدعت و حرام قرار دے دیا۔ میلاد شریف کی مجلسوں کو حرام و بدعت بلکہ کَنْہِیا کے جنم سے بدتر لکھ دیا۔ قیام و سلام کو نا جائز و ممنوع قرار دیا۔ بزرگان دین
کے عرسوں کو ناجائز و حرام لکھا۔ محرم میں ذکر شہادت اور سبیلوں سے منع کیا۔ اور لطف یہ ہے کہ ان لوگوں سے جب ان رسومات کے کفر و شرک اور بدعت و حرام ہونے پر دلیل طلب کی جاتی ہے تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم لوگوں نے احتیاطاً ان چیزوں کو کفر و شرک اور حرام و بدعت لکھ دیا ہے تاکہ لوگ ڈر کر ان چیزوں کو چھوڑ دیں۔ خدا کے لئے کوئی ان سے پوچھے کہ اﷲتعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو کفر و شرک’ اور حرام و ناجائز ٹھہرانا یہ احتیاط ہے یا اعلیٰ درجے کی بے احتیاطی ہے؟ اﷲتعالیٰ نے جن چیزوں کو حلال بتایا ہے ان کو کفر وشرک اور حرام بتانا۔ یہ اﷲتعالیٰ پر افتراء وتہمت ہے اور قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ۔
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنۡ کَذَبَ عَلَی اللہِ ۔
یعنی اس سے زیادہ ظالم اور کون ہوگا؟ جو اﷲتعالیٰ پر جھوٹی تہمت لگائے۔(پ24،الزمر:32)
بہر حال خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن رسموں کو اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے حرام نہیں بتایا۔ ان کو خواہ مخواہ کھینچ تان کر حرام ٹھہرانا یہ خود بہت بڑا گناہ ہے۔ لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان لوگوں سے بھی الگ تھلگ رہیں۔ اور ہر گز ہرگز ان لوگوں کی پیروی نہ کریں۔
سوم ہم سب اہلسنّت و جماعت کا مقدس طبقہ ہيں۔ جس کے بڑے بڑے علمبرداروں میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی و مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی’ ومولانا فضل رسول بدایونی’ ومولانا فضل حق خیر آبادی’ومولانا بحر العلوم لکھنوی و اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی وغیرہ بزرگان دین ہیں۔ اہلسنّت و جماعت کے ان مقدس بزرگوں کا مسلمانوں کی رسموں کے بارے میں یہ فتویٰ ہے کہ مسلمانوں کی وہ رسمیں جن کو شریعت نے منع کیا ہے وہ یقیناََ حرام و ناجائز ہیں۔ مثلاََ ناچ گانا۔ باجا بجانا۔ آتش
بازی دولھا کو چاندی سونے کے زیورات پہنانا۔ تقریبات میں عورتوں مردوں کا بے پردگی کے ساتھ جمع ہونا۔ گھر کے اندر عورتوں کے درمیان دولھا کو بلانا اور عورتوں کا بے پردہ ان کے سامنے آنا۔ اور سالیوں وغیرہ کا ہنسی مذاق کرنا۔ دولھا کے جوتوں کو چرا لینا پھر زبردستی دولھا سے انعام وصول کرنا وغیرہ وغیرہ لیکن شریعت نے جن رسموں کو جائز بتایا۔ یا وہ رسمیں جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے ان کو ہرگز ہرگز ناجائز اور حرام نہیں کہا جاسکتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب تک کسی رسم کی ممانعت شریعت سے نہ ثابت ہو۔ اس وقت تک اسے حرام و ناجائز نہیں کہہ سکتے۔ خواہ مخواہ مسلمانوں کی تمام رسموں کو کھینچ تان کر ممنوع اور حرام قرار دینا، اور بلاوجہ مسلمانوں کو بدعتی اور حرام کا مرتکب کہنا یہ بہت بڑی زیادتی اور دین میں حد سے بڑھ جانا ہے ۔ کیونکہ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ مسلمانوں کی رسموں اور رواجوں کی بنیاد عرف پر ہے۔ یہ کوئی مسلمان بھی نہیں سمجھتا کہ یہ سب رسمیں شرعاََ واجب یا سنت یا مستحب ہیں۔ بعض مولویوں کا یہ کہنا کہ چونکہ فلاں رسم کو لوگ فرض سمجھنے لگے ہیں اور اس کو کبھی ترک نہیں کرتے ہیں اس لئے لوگوں کو ہم اس رسم سے روکتے ہیں کہ لوگ ایک غیر فرض کو فرض سمجھنے لگے ہیں ۔ مسلمانو! خوب سمجھ لو کہ یہ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ اور درحقیقت یہ لوگ خود بھی دھوکے میں ہیں۔ اور دوسروں کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں۔ یاد رکھو کہ کسی چیز کو ہمیشہ کرتے رہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اسکا کرنے والااس کو فرض سمجھتا ہے کسی چیز کو ہمیشہ کرتے رہنا یہ اور بات ہے۔ اور اسکو فرض سمجھ لینا اور بات ہے۔ دیکھو وضو کرنے والا ہمیشہ وضو میں کانوں اور گردن کا مسح ضرور کرتا ہے کبھی بھی گردن اور کانوں کے مسح کو نہیں چھوڑتا۔ تو کیا کوئی بھی اس پر یہ الزام لگا سکتا ہے؟ کہ وہ سر کے مسح کی طرح گردن اور کانوں کے مسح کو بھی فرض سمجھتا ہے۔ حالانکہ کانوں اور گردن کا مسح سنت و مستحب ہے اور کیا کوئی بھی اسکی جرات کر سکتا ہے کہ لوگوں کو کانوں اور گردن کے مسح سے منع کر دے کہ لوگ ایک غیر فرض کو فرض سمجھنے لگے ہیں۔
بس اسی طرح سمجھ لو کہ لوگ ہمیشہ عید کے دن سویاں اور شب برات کو حلوا پکاتے ہیں اور میلاد شریف میں ہمیشہ شیرینی بانٹتے ہیں اور کبھی بھی اس کو ترک نہیں کرتے مگر اسکو ہمیشہ کرنے سے یہ الزام نہیں آتا کہ لوگ ان کاموں کو فرض سمجھنے لگے ہیں۔ جس طرح گردن اور کانوں پر ہمیشہ مسح کرنے والا ہمیشہ کرنے کے باوجود یہی عقیدہ رکھتا ہے کہ کانوں اور گردن کا مسح فرض نہیں ہے بلکہ سنت و مستحب ہے۔ اسی طرح ہمیشہ عید کو سویاں اور شب برات کو حلوا پکانے والا یہی عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ فرض نہیں ہیں بلکہ جائز و مباح ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کسی چیز کو فرض سمجھنا یا فرض نہ سمجھنا اس کا تعلق عقیدہ سے ہے نہ کہ عمل سے۔ کہاں عمل؟ اور کہاں عقیدہ؟ عمل اور چیز ہے اور عقیدہ اور چیز۔ دونوں میں بڑافرق ہے!
بہر حال خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں رواج پا جانے والی تمام رسومات حرام و ناجائز نہیں۔ بلکہ کچھ رسمیں جائز اور کچھ ناجائز ہیں۔ اور جائز رسموں کو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ جائز رسموں کی پابندی اسی حد تک کر سکتا ہے کہ کسی فعل حرام میں مبتلا نہ ہو۔