اِن لوگوں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے :
(1)فقیر(2)مِسکین (3)عامِل (4)رِقاب (5)غارِم (6)فِیْ سَبِیْلِ اللہ (۷)اِبن سبیل (یعنی مسافر)
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ، الباب السابع فی المصارف ،ج۱،ص۱۸۷)
اِن کی تفصیل
فقير: وہ ہے کہ(الف) جس کے پاس کچھ نہ کچھ ہو مگر اتنا نہ ہوکہ نِصاب کو پَہنچ جائے (ب)يانِصاب کی قَدَر توہو مگر اس کی حاجتِ اَصلِيہ (يعنی ضَرورياتِ زندَگی ) ميں مُسْتَغْرَق(گِھراہوا ) ہو ۔مَثَلاً رہنے کا مکان، خانہ داری کا سامان، سُواری کے جانور( یا اسکوٹر یا کار) کاریگروں کے اَوزار، پہننے کے کپڑے ،خِدمت کیلئے لونڈی ،غلام، عِلمی شُغْل رکھنے والے کے لیے اسلامی کتابيں جو اس کی ضَرورت سے زائد نہ ہوں (ج) اِسی طرح اگر مَديون ( مَقروض ) ہے اور دَین ( قَرضہ ) نکالنے کے بعد نِصاب باقی نہ رہے تو فقير ہے اگر چہِ اس کے پاس ايک تو کيا کئی نِصابيں ہوں ۔
(رَدُّالْمُحتَارج۳ص۳۳۳، بہارشريعت،ج۱،مسئلہ نمبر۲، حصہ ۵ ص۹۲۴ )
مِسکين: وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یہاں تک کہ کھانے اور بدن چُھپانے کیلئے اِس کامُحتاج ہے کہ لوگوں سے سُوال کرے اور اسے سُوال حلال ہے۔ فقير کو ( يعنی جس کے
پاس کم از کم ايک دن کا کھانے کیلئے اور پہننے کیلئے موجود ہے ) بِغير ضَرورت و مجبوری سُوال حرام ہے ۔
(الفتاوٰی الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ،الباب السابع فی المصارف ،ج۱،ص۱۸۷)
عامِل: وہ ہے جسے بادشاہِ اسلام نے زکوٰۃ اور عشر وصول کرنے کے لئے مقرر کیا ہو۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ،الباب السابع فی المصارف ،ج۱،ص۱۸۸)
نوٹ: صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں کہ”عامل اگرچہ غنی ہو اپنے کام کی اجرت لے سکتا ہے اور ہاشمی ہوتو اس کو مال زکوٰۃ میں سے دینا بھی ناجائز اور اسے لینا بھی ناجائز ،ہاں اگر کسی اور مَد(یعنی ضمن) میں دیں تو لینے میں حرج نہیں ۔
(بہارِ شریعت، ج۱،مسئلہ نمبر۶،حصہ ۵،ص۹۲۵)
رِقاب: سے مراد مکاتب ہے ۔ مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس سے اس کے آقا نے اس کی آزادی کے لئے کچھ قیمت ادا کرنا طے کی ہو ،فی زمانہ رقاب موجود نہیں ہیں۔
غارِم : اس سے مراد مقروض ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ دینے کے بعد زکوٰۃ کا نصاب باقی نہ رہے اگرچہ اس کا بھی دوسروں پر قرض باقی ہو مگر لینے پر قدرت نہ رکھتا ہو ۔
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ ،باب المصرف ،ج۳،ص۳۳۹)
فِی سَبِیلِ اللہ: یعنی راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں خرچ کرنا ۔اس کی چند صورتیں ہیں :
(۱) کوئی شخص محتاج ہے اور جہاد میں جانا چاہتا ہے مگر اس کے پاس سواری اور زادِ راہ نہیں ہیں تو اسے مالِ زکوٰۃ دے سکتے ہیں کہ یہ راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں دینا ہے اگرچہ وہ کمانے پر قادر ہو ۔
(۲) کوئی حج کے لئے جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس زادِ راہ نہیں ہے تو اسے
بھی زکوٰۃ دے سکتے ہیں لیکن اسے حج کے لئے لوگوں سے سوال کرنا جائز نہیں ہے ۔
(۳) طالبِ علم کہ علمِ دین پڑھتا ہے یا پڑھنا چاہتا ہے اس کو بھی زکوٰۃ دے سکتے ہیں بلکہ طالب ِ علم سوال کر کے بھی مال ِ زکوٰۃ لے سکتا ہے جبکہ اُس نے اپنے آپ کو اسی کام کے لیے فارغ کر رکھا ہو ، اگرچہ وہ کمانے پر قدرت رکھتا ہو ۔
(۴) اسی طرح ہر نیک کام میں مالِ زکوٰۃ استعمال کرنا بھی فی سبیل اللہ یعنی راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں خرچ کرنا ہے ۔مال ِ زکوٰۃ میں دوسرے کو مالک بنادینا ضروری ہے بغیر مالک کئے زکوٰۃ ادا نہیں ہوسکتی ۔
(الدرالمختار و رد المحتار،کتاب الزکوٰۃ ، باب المصرف ،ج۳،ص۳۳۵،۳۴۰،بہارِشریعت،ج۱،مسئلہ نمبر۱۴،حصہ ۵،ص۹۲۶،ملخصاً)
ابن سبیل :یعنی وہ مسافر جس کے پاس سفر کی حالت میں مال نہ رہا، یہ زکوٰۃ لے سکتا ہے اگرچہ اس کے گھر میں مال موجود ہو مگر اسی قدر لے کہ اس کی ضرورت پوری ہوجائے ، زیادہ کی اجازت نہیں اور اگر اسے قرض مل سکتا ہو تو بہتر ہے کہ قرض لے لے۔
(الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الزکوٰۃ، الباب السابع فی المصارف، ج۱،ص۱۸۸)
نوٹ: صدر الشریعہ ،بدرالطریقہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں : ”جن لوگوں کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ انہیں زکوٰۃ دے سکتے ہیں ان سب کا فقیر ہونا شرط ہے سوائے عامل کے کہ اس کے لئے فقیر ہونا شرط نہیں اور ابن سبیل (یعنی مسافر) اگرچہ غنی ہو اس وقت فقیر کے حکم میں ہے ،باقی کسی کو جو فقیر نہ ہو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ۔”
(بہارِ شریعت ،ج۱،مسئلہ نمبر۴۴ حصہ۵، ص۹۳۲)