استنجا خانے مسجد سے کتنی دور ہونے چاہئیں۔

استنجا خانے مسجد سے کتنی دور ہونے چاہئیں۔

بارگاہِ رضوِیَّت میں سُوال ہوا کہ نَمازیوں کیلئے اِستِنجاء خانے مسجِد سے کتنی دُور بنانے چاہئیں ؟ اِس پرمیرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا:مسجِد کو بُو سے بچانا واجِب ہے وَ لہٰذا مسجِد میں مِٹّی کا تیل جلانا حرام، مسجِدمیں دِیاسَلائی ( یعنی بد بودار بارُود والی ماچِس کی تِیلی) سُلگانا حرام ، حتّٰی کہ حدیث میں ارشاد ہوا: مسجِد میں کچّا گوشت لے جانا جائز نہیں۔ (ابنِ ماجہ ج۱ ص۴۱۳ حدیث۷۴۸ دارالمعرفۃ بیروت)  حالانکہ کچّے گوشت کی بُو بَہُت خَفِیف ( یعنی ہلکی )ہے۔ تو جہاں سے مسجِد میں بُو پہنچے وہاں تک (اِستِنجاء خانے بنانے کی) مُمانَعَت کی جائے گی۔ ( فتاویٰ رضویہ ج ۱۶ ص ۲۳۲)  کچّے گوشت کی بد بُو ہلکی ہوتی ہے جب یہ بھی مسجِد میں لے جانا جائز نہیں تو کچّی مچھلی لے جانا بَدَرَجَہ اولیٰ ناجائز ہو گا کیوں کہ اس کی بُو گوشت سے زیادہ تیز ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات پکانے والوں کی بے احتیاطی کے سبب اِس کا سالن کھانے سے بھی ہاتھ
اور مُنہ میں ناگوار بُو ہو جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں بُو دُورکئے بِغیر مسجِد میں نہ جا ئے ۔ اِستِنجا خانوں کی جب صَفائی کی جاتی ہے اُس وَقت بد بُو کافی پھیلتی ہے لہٰذا (اِستِنجاخانے اور مسجِد کے درمیان)اتنا فاصِلہ رکھنا ضَروری ہے کہ صَفائی کے موقع پر بھی بد بُو مسجِد میں داخِل نہ ہو سکے۔ اِستِنجاء خانے اِحاطہ مسجِد میں کھلتے ہوں تو ضَرورتاً دیوار پاٹ کر باہَر کی جانب دروازے سے نکال کر بھی بدبو سے مسجِد کو بچایا جاسکتا ہے ۔
Exit mobile version