علمِ تفسیر اورحضور شیخ الاسلام
مولانا محمد یٰسین اشرفی
) مدرس مدنی میاں عربک کالج ہبلی )
قرآن شریف کا نزول زبانِ عرب میں انہیں کے اسالیب بلاغت پر ہوا اسی لئے صحابۂ کرام کو قرآن فہمی میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔رہ گئیں مجملاتِ قرآنیہ کی تفصیلات ،ناسخ اور منسوخ کے امتیازات تو انہیں حضور رحمتِ عالم ﷺ حسبِ موقع فرما دیا کرتے تھے معیتِ رسولِ کریم ﷺ ان کے لئے مشعلِ راہ رہی صحابۂ کرام کے بعد تابعین کا دور آتا ہے اصحابِ عظام کی محبت اور زمانہ نبی سے قرب کے سبب یہ حضرات بھی قرآنِ پاک سمجھنے میں اسبق و اقدم رہے پھر ایک زمانہ بعض تابعین و تبع تابعین کا ایسا آتا ہے جس میں ان معارفِ قرآنیہ کو علوم وفنون کی شکل دی گئی اور کثرت کے ساتھ تالیفات وتصنیفات شروع ہوگئی علمائے اسلاف کو علوم کی تدوین کی طرف مائل کرنے والی دو چیزیں ہیں ۔ اول مسلمانوں کے درمیان فتنوں کا ظہور ائمہ دین پر بغاوت و ظلم، اختلافِ آرا اور بدعت کی جانب میلان کا حدوث ،فتاویٰ وحوادثات کی کثرت ،مہمات میں علماء کی طرف رجوع کا لامتناہی سلسلہ ۔ دوم عجمیوں کا کثرت کے ساتھ دامنِ اسلام میں پناہ لینا اور اسلام کا روز بروز دنیا کے طول وعرض میں پھیل جانا یہ وہ اسباب تھے جنہوں نے علمائے اسلاف کومجبور کیا کہ وہ نظر واستدلال ،اجتہاد واستنباط، قوائد واصول گستری، ترتیب الابواب وفصول،تکثیر مسائل بالدلائل ،ایراد شبہ مع الاجوبہ ،تعیین اوضاع و اصطلاحات اور تبیین مذاہب واختلافات کی طرف توجہ فرمائیں ۔یہی سبب ہے کہ قرآن پاک کی تحقیق وتدقیق کے سلسلے میں کوئی مخارجِ حروف اور رعایتِ حروف کو مرکزِ نگاہ بنائے ہوئے ہے تو کوئی قرآنی لغات کے حرکات وسکونات سے بحث کر رہاہے کسی کی نظر اگر اسباب پر ہے کہ لفظ ِ قرآنی کا استعمال استقبال کے لئے ہے یا حال کے لئے تو کوئی احوالِ کلمات کو اعراب وبنا کی حیثیت سے دیکھتا ہے اگر ایک قوم قرآن کی فصاحت و بلاغت اور وجوہ اعجاز وتحسین کو موضوعِ بحث بنائے ہوئے ہے تو دوسرے لوگ اس کے مبانی ومعانی کی تحقیق وتدقیق میں لگے ہوئے ہیں اگر ایک جماعت عقلیہ اور شواہد ِ اصلیہ سے وحدانیت خدا اور اس کی قدرت پر علتوں کا استنباط کررہی ہے تو دوسرا فریق اس پر عامل ،مجمل ومفصل وغیرہ کے زاویہ نگا سے غور کرتا ہے اور ایسا ہی ایک گروہ فکر صحیح کا سہارا لے کر ایک شیٔ کی حلت اور دوسری شیٔ کی حرمت کے احکام کا استخراج کرتا ہے ۔اس غورو فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے سامنے علمِ قرأت ،علم لغت ، علم صرف ،علم نحو ، علم بیان، علم تفسیر ، علم کلام ، علم اصول اور علم فقہ جیسے گراں قدر علوم کا ایک ذخیرہ آگیا صرف انہیں پر اکتفا نہیں بلکہ قرآن شریف سے متعلق بہت سارے علوم ِخاص ،علمائے اسلام نے ایجاد کئے جن میں بعض یہ بھی ہیں ۔ علم مفردات ، علم رسم الخط ، علم عروض وقوافی، علم مناظرہ ، علم اسماء الرجال ،علم حدیث، علم قصص ، علم تصوف وغیرہ ۔ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیٔ (سورۃ النحل) اے محبوب ہم نے تم پر کتاب اتاری جس میں ہر شیٔ ،ہرچیز،ہر موجود کاروشن بیان ہے(معارف القرآن) کی حقیقتیں گوا ہ ہیں کہ کوئی ایسی شئی نہیں جس کا استخراج قرآن سے ممکن نہ ہویہاں تک کہ بعض مفکرینِ اسلام نے علم ہیئت ،علم ہندسہ ، علم نجوم، علم طب اور دیگر علوم عربیہ کا استخراج قرآ ن شریف ہی سے فرمایا ہے ان تمام علوم قرآنیہ میں علم تفسیر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے لہذا اس کو سید العلوم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ہمارے موضوع کلام کا تقاضہ ہے کہ ہم تفسیر کے مفہوم ،غرض وغایت اور اس کے متعلقات کو واضح کر کے تاریخی حیثیت سے اس پرکچھ روشنی ڈالیں اور پھر اپنے اصل موضوع پر گفتگو کریں ۔
علم تفسیر ۔ وہ علم ہے جو بحسب طاقت بشریہ اور باعتبار قواعد عربیہ نظم قرآنی کے معانی سے بحث کرے۔
غرض ۔ نظم قرآنی کے معانی کے شناخت اور استنباطِ احکام ۔
غایت ۔ سعادت دارین ، دنیا میں امتثالِ ا وامر اور اجتناب نواہی سے اور آخرت میں جنت سے
موضوع ۔ آیات قرآنیہ فہم معانی کے حیثیت سے ۔
واضع ۔تابعین کرام میں سے علمائے راسخین ۔
شرائط تفسیر۔ حضرت امام جلا ل الدین سیوطی قدس سرہ نے قرآن مجید کی تفسیر کے لئے پندرہ علوم وفنون میں مہا رت تامہ کی شرط لگا ئی ہے اور فرماتے ہیں جو شخص ان پندرہ علوم وفنون میںسے کسی ایک میں بھی نا قص ہو اسے قرآن مجید کی تفسیر کرنے کا حق نہیں ہے (الاتقان) (۱) لغت عربیہ (۲) علم النحو (۳)علم الصرف (۴) علم الاشتیاق (۵) علم المعانی (۶) علم البیان (۷) علم البدیع (۸) علم القرأ ت(۹) قوائد شرعیہ (۱۰) علم فقہ (۱۱) اصول فقہ (۱۲) علم الاسبا ب النزول (۱۳)علم ناسخ ومنسوخ (۱۴)علم الحدیث (۱۵)علم الموہبہ مفسر قرآن کے لئے جن شرائط کا ہونا مستند مفسرین نے ضروری قرار دیا ہے وہ یہ ہیں۔
(۱) ذکی ،فہیم ہو قرآن فہمی کی کامل و مکمل مہا رت رکھتا ہو (۲) علوم مذکور ہ باضابطہ ماہر و حاذق اور تجربہ کار اساتذہ سے حاصل کیاہو۔
(۳) علمائے معاصرین اور فضلائے ہم زماں کی نظر میں اس کا علم، فہم اور تقویٰ مسلم ومعتبر ہو (۴) خود رائے اور متکبر نہ ہو (۵) سنی صحیح العقیدہ ہو (فیوض الرحمن )
سید المفسرین حضور شیخ الاسلام والمسلمین حضرت علامہ الشاہ سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلا نی کے جملہ تصانیف گوہر بے بہا تحقیقات وتدقیقات کا خزینہ ہیں مگر ان سب میں تفسیر اشرفی کا مقام سب سے اعلیٰ وارفع ہے گویا کہ یوں کہنا بجا نہ ہوگا سارے تفاسیر کا نچوڑ ہے ۔ حضور شیخ الاسلام علم تفسیر میں ایک قوت راسخہ رکھتے ہیں علم تفسیر کے تمام شرائط اور مفسر کے تمام اوصاف آپ میں بدرجہ اتم موجود ہیں یہ سارے خصوصیات کی وجہ سے آپ اس دور کے علماء و مشائخین میں میر اور حکم کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
مولانا سید سیف الدین اصدق فرماتے ہیں
حضور شیخ الاسلام جہا ں کلام الہٰی کے رمز آشنا مفسر ہیں ،وہیں ذخیرہ ٔاحادیث کے فہیم بھی علم فقہ پر دسترس رکھنے والے فقیہ ہیںتو وہیں ایک نکتہ رس معقولی بھی ،علم کلام کے اگر ماہر ہیں ،تو بحرتحقیق وتدقیق کے شناور بھی ،
شائستہ وپاکیزہ شاعری کا اگر ذوق رکھتے ہیں، تو وہیں ایک سلا مت رو ادیب بھی ،فصاحت و بلا غت سے مزین اگر تا ج دارِ خطا بت ہیں، تو تصو فِ حقیقی سے آراستہ ایک خانقاہی فقیر بھی، ان فضا ئل وکما لات کو دیکھ کر بس یہی کہا جا سکتا ہے جیسے صد یوں پہلے حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے کہا تھا اور آج تک کہا جارہا ہے اور شاید قیامت تک کہا جا تا ر ہے کہ
ایں سعا دت بزور بازونیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ
مولانا سید شاہ رکن الدین صاحب اصدق فرماتے ہیں کہ
میں نے خود دیکھا کہ مفکر اسلام حضرت علا مہ مظفر حسن صا حب ظفر ادیبی جو بلا شبہ اپنے دور کے اما م المعقولات تھے اور دور تک ان کا طوطی بولتا تھا وہ شمسِ بازغہ لے کا مطا لعہ میں غرق ہیں ،میں جب قریب سے گزرا تو آہٹ پا کر انہوں نے سر اٹھا یا ،اور پو چھا کون ؟ میں پلٹ کر قریب ہوا اور بولا جی میں ! بولے اچھا سید صاحب ذرا مدنی میاں کو بلا ئیے میں نے مدنی میاں کو جو چھت پر ہم در سوں کے در میا ن کسی کتا ب کی تکرار میں مشغول تھے، جا کر اطلاع دی اور وہ اٹھ کر چلے تو تجسس کے ہا تھوں مجبور ہو کر میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا کہ آخر کیا بات ہے ؟علا مہ ظفر ادیبی صاحب کے پا س جب مدنی میاں پہنچے تو آپ نے انہیں احترام کے ساتھ بیٹھنے کو کہا ادھر استاذ کے احترام میں جب یہ صرف ایک کنا رے ٹک گئے تو اشا رہ کر کے کہا میاں یہاں آرام سے بیٹھیے پھر کتاب ان کی طرف بڑھا کر عبا رت پر انگلی رکھتے ہوئے بولے ذرا دیکھیٔے یہاں مصنف کیا کہنا چاہ رہے ہیں مدنی میاں کتاب لے کرکچھ دیر تک دیکھتے رہے اور پھر جب اسکی وضاحت کی تو علا مہ ظفر ادیبی کے چہرے پر تسکین وشادمانی کا خاص رنگ چھا گیا اور اطمینان بخش انداز میں گردن ہلا کر تائید کرتے ہوئے انہیں رخصت کیا، اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا سید شاہ رکن الدین صاحب اصدق نے فرمایا کہ اس سے جہاں مدنی میاں کی ٹھو س علمی استعداد اور منطق و فلسفہ کے ادق اور خشک مسا ئل پر گہری نظر کا پتہ چلتا ہے وہیں اسا تذہ کا ان پر کتنا اعتماد تھا اس کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے ساتھ ہی علامہ ظفرادیبی کے کما ل ظرف اور وسعت قلبی کا بھی پتہ چلتا ہے یہ جگر ہر استاذ کانہیں ہو سکتا کہ وہ کسی مسئلے کے حل کے لئے اپنے شا گرد سے رجو ع کرے اورفراخ دلی کے ساتھ اسے قبول بھی کرلے (جام نورمحدث اعظم نمبر)
ٹی وی ویڈیو اور کا شرعی استعمال اور دیگر تصنیفات دیکھنے کے بعد غزالی ٔ دوراں حضرت علامہ سید سعید احمد کاظمی صاحب قبلہ نے حضور شیخ الاسلام کوـ’’رئیس المحققین” کے خطاب سے نوازا۔(حیات حضور محدث اعظم )
مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی صاحب قبلہ فرماتے ہیں ویڈیو اور ٹی وی کا شرعی استعمال مشروط استعمال سے متعلق ایک استفتا ء کا جواب ہے ,
اس کتاب کے مطالعہ سے مصنف (حضور شیخ الاسلام ) کی فقہی بصیرت اور علوم شرعیہ میں ان کی دسترس وگہرائی کا پتہ چلتا ہے ۔(جام نورمحدث اعظم نمبر)
اورکیو ں نہ ہوں جن کے اہلِ خاندان کا عالم یہ ہے کہ صدیوں سے اسلام کی روح کو تقویت دے رہے ہیں اور طالبانِ حق کی تشنگی کو دور کرہے ہیں اور انہیں برگزیدہ محبوب بندوں کے سائے میں حضو شیخ الاسلام والمسلمین کی پرورش ہوئی اور انہیں کے ذریعہ سلسلہ در سلسلہ غوث العالم ، تارک السلطنت ، محبوب یزدانی حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیضان آپ پر ایسا برسا کہ آپ نے اس فیضان سے سارے عالمِ اسلام کو سیراب کردیا اورآپ عالمِ اسلام کی روحانی ودینی تشنگی کو بجھانے کا مرکز بن گئے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا