یوں تو تمام ہی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضور شمع نبوت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پروانے تھے اور انتہائی جاں نثاری کے ساتھ آپ کی خدمت گزاری کے لیے سبھی تن من دھن سے حاضر رہتے تھے مگر پھر بھی چند ایسے خوش نصیب ہیں جن کا شمار حضور تاجدارِ رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خصوصی خدام میں ہے۔ ان خوش بختوں کی مقدس فہرست میں مندرجِ ذیل صحابہ کرام خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
(۱)حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ مشہور و ممتاز خادم ہیں۔ انہوں نے دس برس مسلسل ہر سفرو حضر میں آپ کی وفادارانہ خدمت گزاری کا شرف حاصل کیاہے۔ ان کے لیے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خاص طور پر یہ دعا فرمائی تھی کہ ” اَللّٰھُمَّ اَکْثِرْ مَالَہٗ وَوَلَدَہٗ وَاَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ” یعنی اے اﷲ! اس کے مال اور اولاد میں کثرت عطا فرما اور اس کو جنت میں داخل فرما۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ان تین دعاؤں میں سے دو دعاؤں کی مقبولیت کا جلوہ تو میں نے دیکھ لیا کہ ہر شخص کا باغ سال میں ایک مرتبہ پھلتا ہے اور میرا باغ سال میں دو مرتبہ پھلتا ہے۔ اور پھلوں میں مشک کی خوشبو آتی ہے۔ اور میری اولاد کی تعداد ایک سو چھ ہے جن میں ستر لڑکے اور باقی لڑکیاں ہیں۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ میں تیسری دعا کا جلوہ بھی ضرور دیکھوں گا۔ یعنی جنت میں داخل ہو جاؤں گا۔ انہوں نے دو ہزار دو سو چھیاسی حدیثیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں اور حدیث میں ان کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی عمر سو برس سے زائد ہوئی۔ بصرہ میں ۹۱ھ یا ۹۲ھ یا ۹۳ھ میں وفات پائی۔(1)(زرقانی جلد ۳ ص ۲۹۶ تا ص۲۹۷)
(۲)حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے وضو کرانے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ یعنی پانی اور مسواک وغیرہ کا انتظام کرتے تھے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو جنت کی بشارت دی تھی۔ ۶۳ھ میں وفات پائی۔ (2)
(زرقانی جلد ۳ ص ۲۹۷)
(۳)حضرت ایمن بن ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ !حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک چھوٹی مشک جس سے آپ استنجا اوروضو فرمایا کرتے تھے ہمیشہ آپ ہی کی تحویل میں رہا کرتی تھی۔ یہ جنگ حنین کے دن شہادت سے سرفراز ہوئے۔(1)(زرقانی جلد ۳ ص۲۹۷)
(۴)حضرت عبداﷲا بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ نعلین شریفین اور وضو کا برتن اور مسند و مسواک اپنے پاس رکھتے تھے۔ اور سفر و حضر میں ہمیشہ یہ خدمت انجام دیا کرتے تھے۔ ساٹھ برس سے زیادہ عمر پاکر ۳۲ ھ یا۳۳ھ میں بعض کا قول ہے کہ مدینہ میں اور بعض کے نزدیک کوفہ میں وصال فرمایا۔ (2)(زرقانی جلد ۳ ص ۲۹۷ تا ۲۹۸)
(۵) حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ! یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سواری کے خچر کی لگام تھامے رہتے تھے۔ قرآن مجیداور فرائض کے علوم میں بہت ہی ماہر تھے اور اعلیٰ درجہ کے فصیح خطیب اور شعلہ بیان شاعر تھے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی حکومت کے دور میں ان کو مصر کا گورنر بنادیا تھا۔ ۵۸ھ میں مصر کے اندر ہی ان کا وصال ہوا۔(3)(زرقانی جلد ۳ ص ۲۹۹)
(۶) حضرت اسلع بن شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اونٹ پر کجاوہ باندھنے کی خدمت انجام دیاکرتے تھے۔(4)
(۷)حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ! یہ بہت ہی قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ انتہائی تارک الدنیا اورعابد و زاہد تھے اور دربار نبوت کے بہت ہی خاص خادم تھے۔ ان کے فضائل میں چند حدیثیں بھی وارد ہوئی ہیں۔ ۳۱ھ میں مدینہ منورہ سے کچھ دور ”ربذہ” نامی گاؤں میں ان کاوصال ہوا اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔(1)(زرقانی جلد ۳ ص ۳۰۰)
(۸) حضرت مہاجر مولیٰ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما !یہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آزاد کردہ غلام تھے۔ شرف صحابیت کے ساتھ ساتھ پانچ برس تک حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت کا بھی شرف حاصل کیا۔ بہت ہی بہادر مجاہد بھی تھے۔ مصر کو فتح کرنے والی فوج میں شامل تھے۔ کچھ دنوں تک مصر میں رہے۔ پھر ”طحا” چلے گئے اور وہاں اپنی وفات تک مقیم رہے۔(2) (زرقانی جلد۳ ص۳۰۱)
(۹) حضرت حنین مولیٰ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما !یہ پہلے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے غلام تھے اور دن رات آپ کی خدمت کرتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہیں اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرما دیا اور یہ حضرت عباس کے غلام ہوگئے۔ لیکن چند ہی دنوں کے بعد حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اس لیے آزاد کردیا تاکہ یہ دن رات بارگاہِ نبوت میں حاضر رہیں اورخدمت کرتے رہیں۔(3)(زرقانی جلد۳ ص ۳۰۱)
(۱۰) حضرت نعیم بن ربیعہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ بھی خادمانِ بارگاہِ رسالت کی فہرست خاص میں شمار کیے جاتے ہیں۔(4)(زرقانی جلد ۳ ص ۳۰۱)
(۱۱) حضرت ابوالحمراء رضی اللہ تعالیٰ عنہ! ان کانام ہلال بن الحارث تھا۔ یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور خادم خاص ہیں۔ وفات نبوی کے بعد یہ مدینہ سے ”حمص” چلے گئے تھے اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔(1)(زرقانی جلد ۳ ص ۳۰۱)
(۱۲) حضرت ابوالسمع رضی اللہ تعالیٰ عنہ !حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے غلام تھے پھر آپ نے ان کو آزاد فرما دیا مگر یہ دربار نبوت سے جدا نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ خدمت گزاری میں مصروف رہے۔ حضور علیہ ا لصلوٰۃ والسلام کو اکثر یہی غسل کرایا کرتے تھے۔ ان کا نام ”اِیاد” تھا۔(2)(زرقانی جلد ۳ص ۳۰۱)