محرم کے مہینے میں صرف اتنی بات ہے کہ حضرت امام حسین رضی اﷲتعالی عنہ اور شہدائے کربلا رضی اﷲتعالی عنہم کے مقدس روضوں کی تصویر نقشہ بناکر رکھنا اور
ان کو دیکھنا یہ تو جائز ہے۔ کیونکہ یہ ایک غیر جاندار چیز کی تصویر یا نقشہ ہے لہٰذا جس طرح کعبہ، بیت المقدس، نعلین شریفین وغیرہ کی تصویریں اور ان کے نقشے بنا کر رکھنے کو شریعت نے جائز ٹھہرایا ہے۔ اسی طرح شہدائے کربلا کے روضوں کی تصویریں اور نقشے بھی یقیناً جائز ہی رہیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ محرم کے مہینے میں جو بہت سی بدعتیں اور خرافاتی رسمیں چل پڑی ہیں۔ وہ یقیناً ناجائز اور گناہ کے کام ہیں۔ مثلاً ہر سال سینکڑوں ہزاروں روپے کے خرچ سے روضہ کربلا کا نقشہ بنا کر اس کو پانی میں ڈبو دینا یا زمین میں دفن کردینا۔ یا جنگلوں میں پھینک دینا یہ یقیناً حرام و ناجائز ہے۔ کیونکہ یہ اپنے مال کو برباد کرنا ہے اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ مال کو ضائع اور برباد کرنا حرام و ناجائز ہے۔ اسی طرح کی دوسری بہت سی خرافات و لغویات مثلاً ڈھول تاشہ بجانا، تعزیوں کو ماتم کرتے ہوئے گلی گلی پھراناسینے کو ہاتھوں یا زنجیروں یا چھریوں سے پیٹ پیٹ کر اور مار مار کر اچھلتے کودتے ہوئے ماتم کرنا۔ تعزیوں کے نیچے اپنے بچوں کو لٹاناتعزیوں کی تعظیم کے لیے تعزیوں کے سامنے سجدہ کرنا، تعزیوں کے نیچے کی دھول اٹھااٹھا کر بطور تبرک چہروں، سروں اور سینوں پر ملنا۔ اپنے بچوں کو محرم کا فقیر بنا کر محرم کی نیاز کے لئے بھیک منگوانا۔ بچوں کو کربلا کا پیک اور قاصد بنا کر اور ایک خاص قسم کا لباس پہنا کر ادھر ادھر دوڑاتے رہنا، سوگ منانے کے لئے خاص قسم کے کالے کپڑے پہن کر ننگے سر ننگے پاؤں گریبان کھولے ہوئے یا گریبان پھاڑ کر گلی گلی بھاگے بھاگے پھرنا وغیرہ وغیرہ قسم کی لغویات و خرافات کی رسمیں جو مسلمانوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ سب ممنوع و ناجائز ہیں اور یہ سب زمانہ جاہلیت اور رافضیوں کی نکالی ہوئی رسمیں ہیں جن سے توبہ کر کے خود بھی ان حرام رسموں سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ہر مسلمان پر لازم ہے اسی طرح تعزیوں کا جلوس دیکھنے کے لیے عورتوں کا بے پردہ گھروں سے نکلنا
اور مردوں کے مجمعوں میں جانا اور تعزیوں کو جھک جھک کر سلام کرنا۔ یہ سب کام بھی شریعت میں منع اور گناہ ہیں۔