قضیہ: قضیہ کی تعریف دوطرح سے کی جاتی ہے۔ ۱۔” ھُوَ قَوْلٌ یَحْتَمِلُ الصِّدْقَ وَالْکِذْبَ” قضیہ ایک ایسا قول ہے جو صدق وکذب کااحتمال رکھتاہے۔ ۲۔” ھُوَ قَوْلٌ یُقَالُ لِقَائِلِہٖ اِنَّہ، صَادِقٌ فِیْہِ أَوْ کَاذِبٌ” قضیہ ایک ایسا قول ہے جس کے کہنے والے کو سچا یاجھوٹا کہا جاسکے۔ جیسے زَیْدٌجَالِسٌ۔
فائدہ:
صدق کا معنی ہے : مُطَابَقَۃُ النِّسْبَۃِ لِلْوَاقِعِ یعنی کلام کی نسبت کا واقع کے مطابق ہوناجیسے: زَیْدٌنَائمٌ فِی الْبَیْتِ اس قضیہ میں زید اور نائم میں نسبتِ ایجابی ہے اور خارج میں زید کا گھرمیں سونا یہ واقع ہے لہذااگر واقع میں بھی زید گھر میں سو رہا ہے تو یہ نسبتِ کلامی واقع کے مطابق ہے اور اسی مطابقت کا نام صدق ہے۔کذب کا معنی ہے عَدَمُ مُطَابَقَۃِ النِّسْبَۃِ لِلْوَاقِع کلام کی نسبت کا واقع کے مطابق نہ ہونا جیسے:مثالِ مذکور کہ اگر واقع یعنی خارج میں زید گھر میں سو نہیں رہا تو زیدٌ نائمٌ فی البیت کلامِ کاذب ہے کیونکہ اس صورت میں کلام کی نسبت واقع کے مطابق نہیں ہے۔
نوٹ:
اہلِ منطق کی اصطلاح میں ”قول” مرکب کلام کو کہتے ہیں اس لئے تعریف میں جو ”قول” کا لفظ آیا ہے اس سے مراد کلام ہے ۔
قضیہ کی اقسام:
قضیہ کی دو قسمیں ہیں: ۱۔قضیہ حملیہ ۲۔ قضیہ شرطیہ
۱۔ قضیہ حملیہ:
قضیہ حملیہ کی دوطرح سے تعریف کی جاتی ہے :
۱۔” ھِیَ مَا حُکِمَ فِیْھَا بِثُبُوْتِ شَیٍ لِشَیٍ أَوْ نَفْیِہٖ عَنْہُ” قضیہ حملیہ وہ قضیہ ہے جس میں ایک شے کا ثبوت دوسری شے کیلئے یا ایک شے کی نفی دوسر ی شی سے کی جاتی ہے۔ جیسے زَیْدٌ قَائِمٌ زید کھڑاہے ا ور زَیْدٌ لَیْسَ بِقَائِمٌ زید کھڑا نہیں ہے۔
۲۔”ھِیَ مَا یَنْحَلُّ اِلیٰ مُفْرَدَیْنِ أَوْ اِلیٰ مُفْرَدٍ وَقَضْیَۃٍ” یعنی وہ قضیہ جو دومفردوں یا ایک مفرد اور قضیہ کی طرف کھلے (تقسیم ہو) جیسے اَلْحِمَارُ حَیَوَانٌ،زَیْدٌ أَبُوْہ، قَائِمٌ۔
قضیہ شرطیہ:
قضیہ شرطیہ کی بھی دوطرح سے تعریف کی جاتی ہے۔
۱۔”ھِیَ لَمْ یَکُنِ الْحُکْمُ فِیْھَا بِثُبُوْتِ شَیْ لِشَیٍ أَوْنَفْیِہٖ عَنْہُ” وہ قضیہ جس میں ایک چیز کو دوسری چیز کے لئے ثابت کرنے یا ایک چیز سے دوسری چیز کی نفی کرنے کاحکم نہ پایا جائے۔
۲۔”ھُوَ مَایَنْحَلُّ اِلیٰ قَضِیَّتَیْنِ” وہ قضیہ جو دوقضیوں کی طرف کھلے(تقسیم) ہو۔ جیسے اِنْ کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً فَالنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ اگر سورج موجود ہوگا تودن موجود ہوگا۔یہ قضیہ دوقضیوں کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً اور أَلنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ کی طرف تقسیم ہورہاہے۔
قضیہ حملیہ اور شرطیہ کے اجزاء
قضیہ حملیہ کے اجزاء:
قضیہ حملیہ کے تین اجزاء ہیں: ۱۔ موضوع ۲۔ محمول ۳۔ رابطہ
موضوع:
محکوم علیہ کو موضوع کہتے ہیں۔
محمول:
محکوم بہ کو محمول کہتے ہیں۔
رابطہ:
وہ لفظ جونسبت پردلالت کرے اس کو رابطہ کہتے ہیں۔
وضاحت:
زَیْدٌ ھُوَ قَائِمٌ اس مثال میں زید موضوع (محکوم علیہ) قائم محمول(محکوم بہ) اور ھُوَ رابطہ ہے۔
فائدہ:
قضیہ حملیہ میں رابطہ مذکور ہونے کی صورت میں اسے قضیہ ثُلاثِیَّہ اور محذوف ہونے کی صورت میں قضیہ ثُنَائِیَّہ کہتے ہیں۔ پہلے کی مثال زَیْدٌ ھُوَ قَائِمٌ اور دوسرے کی مثال زَیْدٌ قَائِمٌ۔
قضیہ شرطیہ کے اجزاء:
اس کے تین اجزاء ہیں۔
۱۔ مُقَدَّمْ ۲۔ تَالِیْ ۳۔ رابطہ
مقدم:
قضیہ شرطیہ کے پہلے جز کومقدم کہتے ہیں۔
تالی:
قضیہ شرطیہ کے دوسرے جز کو تالی کہتے ہیں۔
رابطہ:
مقدم اور تالی کے درمیان جو حکم ہوتاہے اس کو رابطہ کہتے ہیں۔جیسے اِنْ کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً فَالنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ اس مثال میں کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً مقدم اور اَلنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ تالی ہے اور ان دونوں کے درمیان جو حکم ہے وہ رابطہ ہے۔
٭٭٭٭٭
مشق
سوال نمبر1:۔قضیہ اور اسکی اقسام کی تعریفات تحریر کریں۔
سوال نمبر2:۔قضیہ حملیہ اور قضیہ شرطیہ کے اجزاء وضاحت سے بیان کریں۔
سوال نمبر3:۔ قضیہ ثُلاثِیَّہاورقضیہ ثُنَائِیَّہ میں فرق بیان کریں۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*