اسلامواقعات

باکرامت برچھی

باکرامت برچھی

جنگ بدرمیں سعید بن العاص کا بیٹا”عبیدہ”سر سے پاؤں تک لوہے کا لباس پہنے ہوئے کفار کی صف میں سے نکلا اورنہایت ہی گھمنڈاورغرورسے یہ بولا کہ اے مسلمانو! سن لو کہ میں ”ابو کرش”ہوں ۔ اس کی یہ مغرورانہ للکارسن کر حضرت زبیر بن

العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جوش جہاد میں بھرے ہوئے مقابلے کے لیے اپنی صف سے نکلے مگر یہ دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے سوا اس کے بدن کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جو لوہے میں چھپاہوا نہ ہو۔آپ نے تاک کر اس کی آنکھ میں اس زور سے برچھی ماری کہ برچھی اس کی آنکھ کو چھیدتی ہوئی کھوپڑی کی ہڈی میں چبھ گئی اور وہ لڑکھڑا کر زمین پر گرااورفوراً ہی مرگیا۔حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اس کی لاش پر پاؤں رکھ کر پوری طاقت سے برچھی کو کھینچا تو بڑی مشکل سے برچھی نکلی لیکن برچھی کا سرا مڑکر خم ہوگیا تھا۔یہ برچھی ایک باکرامت یادگار بن کر برسوں تک تبرک بنی رہی۔ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ برچھی طلب فرمالی اوراس کو اپنے پاس رکھا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس یکے بعد دیگرے منتقل ہوتی رہی اوریہ حضرات اعزازواحترام کے ساتھ اس برچھی کی خاص حفاظت فرماتے رہے ۔ پھر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزندحضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس آگئی یہاں تک کہ ۷۳ھ ؁میں جب بنو امیہ کے ظالم گورنرحجاج بن یوسف ثقفی نے ان کو شہید کردیا تو یہ برچھی بنوامیہ کے قبضہ میں چلی گئی۔ پھر اس کے بعد لاپتہ ہوگئی ۔ (1)(بخاری شریف ج۲،ص۵۷۰،غزوہ بدر)

تبصرہ

بخاری شریف کی یہ حدیث پاک ہر مسلمان دین دار کو جھنجھوڑ جھنجھوڑکر متنبہ کر    رہی ہے کہ بزرگان دین وعلما ء صالحین کے عصاء، قلم، تلوار ، تسبیح ، لباس ، برتن وغیرہ سامانوں کو یادگار کے طور پر بطورتبرک اپنے پاس رکھنا حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اورخلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی مقدس سنت ہے ۔ غور فرمائيے کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی برچھی کو تبرک بنا کر رکھنے میں حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اورآپ کے خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کس قدر اہتمام کیا اورکس کس طرح اس برچھی کا اعزازواکرام کیا؟
بدعقیدہ لوگ جو بزرگان دین کے تبرکات اوران کی زیارتوں کا مذاق اڑایا کرتے ہیں اور اہل سنت کو طعنہ دیا کرتے ہیں کہ یہ لوگ بزرگوں کی لاٹھیوں ، تلواروں، قلموں کا اکرام واحترام کرتے ہیں ۔ یہ حدیث ان کی آنکھیں کھول دینے کے لئے سرمۂ ہدایت سے کم نہیں بشرطیکہ ان کی آنکھیں پھوٹ نہ گئی ہوں۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!