یہ امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی بہن اور جنتی صحابی حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیوی ہیں حضرت عبداﷲبن زبیر ان ہی کے شکم سے پیدا ہوئے ہجرت کے بعد مہاجرین کے یہاں کچھ دنوں تک اولاد نہیں ہوئی تو یہودیوں کو بڑی خوشی ہوئی بلکہ بعض یہودیوں نے یہ بھی کہا کہ ہم لوگوں نے ایسا جادو کر دیا ہے کہ کسی مہاجر کے گھر میں بچہ پیدا ہی نہیں ہوگا اس فضاء میں سب سے پہلے جو بچہ مہاجرین کے یہاں پیدا ہوا وہ یہی عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما تھے پیداہوتے ہی حضرت بی بی اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اس اپنے فرزند کو بارگاہ رسالت صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم میں بھیجا حضور اقدس صلي اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنی مقدس گود میں لے کر کھجور منگائی اور خود چبا کر کھجور کو اس بچے کے منہ میں ڈال دیا اور عبداﷲ نام رکھا اور خیر و برکت کی دعا فرمائی یہ اس بچے کی خوش نصیبی ہے کہ سب سے پہلی غذا جو ان کے شکم میں گئی وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا لعاب دہن تھا چنانچہ حضرت اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اپنے بچے کے اس شرف پر بڑا ناز تھا ان کے شوہر حضرت زبیر رشتہ میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كے پھوپھی زاد ہیں مہاجرین میں بہت ہی غریب تھے حضرت بی بی اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جب ان کے گھر میں آئیں تو گھر میں نہ کوئی لونڈی تھی نہ کوئی غلام گھر کا سارا کام دھندا یہی کیا کرتی تھیں یہاں تک کہ گھوڑے کا گھاس دانہ اور اس کی مالش کی خدمت بھی یہی انجام دیا کرتی تھیں بلکہ اونٹ کی خوراک کے لئے کھجوروں کی گٹھلیاں بھی باغوں سے چن کر اور سر پر گٹھری لاد کر لایا کرتی تھیں ان کی یہ مشقت دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو ایک غلام عطا فرما دیا تو ان کے کاموں کا بوجھ ہلکا ہوگیا آپ فرمایا کرتی تھیں کہ ایک غلام دے کر گویا میرے والد نے مجھے آزاد کردیا ۔
یہ محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی بہادر اور دل گردہ والی عورت تھیں ہجرت کے وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان میں جب حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم كا توشہ سفر ایک تھیلے میں رکھا گیا اور اس تھیلے کا منہ باندھنے کے لئے کچھ نہ ملا تو حضرت بی بی اسماء نے فوراً اپنی کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر اس سے توشہ دان کا منہ باندھ دیا اسی دن سے ان کو ذات النطاقین (دوپٹکے والی) کا معزز لقب ملا حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تو حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ ہجرت کی لیکن حضرت اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اس کے بعد اپنے گھر والوں کے ساتھ ہجرت کی ۔
(الاستیعاب ،باب النساء،باب الالف۳۲۵۹،أسماء بنت ابی بکر،ج۴،ص۳۴۵)
۶۳ھ میں واقعہ کربلا کے بعد جب یزید پلید کی فوجوں نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور حضرت عبداﷲ بن زبیررضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان ظالموں کا مقابلہ کیاا ور یزیدی لشکر کو کتوں اور چوہوں کی طرح دوڑا دوڑا کر مارا اس وقت بھی حضرت اسماء مکہ مکرمہ میں موجود رہ کر اپنے فرزند حضرت عبداﷲ بن زبیر کی ہمت بڑھاتی اور ان کی فتح و نصرت کے لئے دعائیں مانگتی رہیں اور جب عبد الملک بن مروان کے زمانہ حکومت میں حجاج بن یوسف ثقفی ظالم نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس ظالم کی فوجوں کا بھی مقابلہ کیا تو اس خوں ریز جنگ کے وقت بھی حضرت اسماء مکہ مکرمہ میں اپنے فرزند کا حوصلہ بڑھاتی رہیں یہاں تک کہ جب عبداﷲبن زبیر کو شہید کر کے حجاج بن یوسف نے ان کی مقدس لاش کو سولی پر لٹکا دیا اور اس ظالم نے مجبور کر دیا کہ بی بی اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا چل کر اپنے بیٹے کی لاش کو سولی پر لٹکی ہوئی دیکھیں تو آپ اپنے بیٹے کی لاش کے پاس تشریف لے گئیں جب لاش کو سولی پر دیکھا تو نہ روئیں نہ بلبلائیں بلکہ نہایت جرأ ت کے ساتھ فرمایا کہ سب سوار تو گھوڑوں سے اتر گئے لیکن اب تک یہ سوار گھوڑے سے نہیں اترا پھر فرمایا! کہ اے حجاج! تونے میرے بیٹے کی دنیا خراب کی اور اس نے تیرے دین کو برباد کر دیا ،،
اس واقعہ کے بعد بھی چند دنوں حضرت اسماء زندہ رہیں مکہ مکرمہ کے قبرستان میں ماں بیٹے دونوں کی مقدس قبریں ایک دوسرے کے برابر بنی ہوئی ہیں جن کو نجدیوں نے توڑ پھوڑ ڈالا ہے مگر ابھی نشان باقی ہے اور ۱۹۵۹ء میں ان دونوں مزاروں کی زیارت میں نے کی ہے رضی اﷲ تعالیٰ عنہما۔
تبصرہ:۔اسلامی بہنو! حضرت بی بی اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی غریبی اور اپنے شوہر کی خدمت اور رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے ان کی محبت پھر ان کی بہادری اور جراء ت واستقلال کے ان واقعات کو بار بار پڑھو اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرو اور یہ بھی سن لو کہ پہلے تو حضرت اسماء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے شوہر بہت غریب تھے مگر بہت ہی بڑے مجاہد تھے بہت زیادہ مال غنیمت میں سے حصہ پایایہاں تک کہ بہت مالدار ہوگئے اور پھر ان کے مالوں میں اس قدر خیر و برکت ہوئی کہ شاید ہی کسی صحابی کے مال میں اتنی خیر و برکت حاصل ہوئی ہوگی۔
یہ ان کی نیک نیتی اور اسلام کی خدمتوں اور عبادتوں کی برکتوں کے میٹھے میٹھے پھل تھے جو ان کو دنیا کی زندگی میں ملے اور آخرت میں اﷲ تعالیٰ نے ان اﷲ والیوں کے لئے جو نعمتوں کے خزانے تیار فرمائے ہیں ان کو تونہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے نہ کسی کے خیال میں آسکتا ہے۔
اے اﷲ کی بندیو! ہمت کرو اور کوشش کرو اور ان نیک بندیوں کے طریقوں پر چلنے کا پختہ ارادہ کر لو ان شاء اﷲ تعالیٰ اﷲجل شانہ کی امداد و نصرت تمہارا بازو تھام لے گی اور ان شاء اﷲ تعالیٰ دنیا و آخرت میں تمہارا بیڑا پار ہو جائے گا بس شرط یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ یہ عزم کر لو کہ ہم ان اﷲ والی مقدس بیبیوں کے نقش قدم پر اپنی زندگی کی آخری سانس تک چلتی رہیں گی اور اسلام کے عقائد و اعمال پر پوری طرح کار بند رہ کر دوسری عورتوں کی اصلاح حال کے لئے بھی اپنی طاقت بھر کوشش کرتی رہیں گی۔