بیعتِ اسلام

اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوہ صفا کی پہاڑی کے نیچے ایک بلند مقام پر بیٹھے اور لوگ جوق در جوق آکر آپ کے دست حق پرست پر اسلام کی بیعت کرنے لگے۔ مردوں کی بیعت ختم ہوچکی تو عورتوں کی باری آئی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہر بیعت کرنے والی عورت سے جب وہ تمام شرائط کا اقرار کرلیتی تو آپ صلی  اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس سے فرما دیتے تھے کہ”قَدْ بَایَعْتُکِ” میں نے تجھ سے بیعت لے لی۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ خدا کی قسم!آپ صلی  اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہاتھ نے بیعت کے وقت کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ صرف کلام ہی سے بیعت فرما لیتے تھے۔ (2)    
(بخاری ج۱ ص ۳۷۵ کتاب الشروط)
    انہی عورتوں میں نقاب اوڑھ کر ہندبنت عتبہ بن ربیعہ بھی بیعت کے لئے آئیں جو حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ہیں۔ یہ وہی ہند ہیں جنہوں نے جنگ ِ اُحد میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شکم چاک کرکے ان کے جگر کو نکال کر چبا ڈالا تھا اور ان کے کان ناک کو کاٹ کر اور آنکھ کو
نکال کر ایک دھاگہ میں پرو کر گلے کا ہار بنایا تھا۔ جب یہ بیعت کے لئے آئیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے نہایت دلیری کے ساتھ گفتگو کی۔ ان کا مکالمہ حسب ذیل ہے۔
رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم    تم خدا کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا۔
ہند بنت عتبہ            یہ اقرار آپ نے مردوں سے تو نہیں لیا لیکن                     بہرحال ہم کو منظور ہے۔
رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم    چوری مت کرنا۔
ہند بنت عتبہ            میں اپنے شوہر(ابوسفیان)کے مال میں سے                     کچھ لے لیا کرتی ہوں۔معلوم نہیں یہ بھی                     جائز ہے یا نہیں؟
رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم     اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا۔
ہندبنت عتبہ            ہم نے تو بچوں کو پالا تھا اور جب وہ بڑے                     ہوگئے تو آپ نے جنگ بدر میں ان کو مار                     ڈالا۔ اب آپ جانیں اور وہ جانیں۔ (1)
                 (طبری ج۳ ص ۶۴۳ مختصراً)
    بہرحال حضرت ابوسفیان اور ان کی بیوی ہند بنت عتبہ دونوں مسلمان ہوگئے (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) لہٰذا ان دونوں کے بارے میں بدگمانی یا ان دونوں کی شان میں بدزبانی روافض کا مذہب ہے۔ اہل سنت کے نزدیک ان دونوں کا شمار صحابہ اور صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی فہرست میں ہے۔
    ابتداء میں گو ان دونوں کے ایمان میں کچھ تذبذب رہاہو مگر بعد میں یہ دونوں صادق الایمان مسلمان ہوگئے اور ایمان ہی پر ان دونوں کا خاتمہ ہوا۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنہما)
    حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بارگاہ نبوت میں آئیں اور یہ عرض کیا کہ یارسول اللہ! عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم روئے زمین پر آپ کے گھر والوں سے زیادہ کسی گھر والے کا ذلیل ہونا مجھے محبوب نہ تھا۔ مگر اب میرا یہ حال ہے کہ روئے زمین پر آپ کے گھروالوں سے زیادہ کسی گھروالے کا عزت دار ہونا مجھے پسند نہیں۔ (1) (بخاری ج۱ ص ۵۳۹باب ذکر ہند بنت عتبہ)
    اسی طرح حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں محدث ابن عساکر کی ایک روایت ہے کہ یہ مسجدحرام میں بیٹھے ہوئے تھے اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سامنے سے نکلے تو انہوں نے اپنے دل میں یہ کہا کہ کونسی طاقت ان کے پاس ایسی ہے کہ یہ ہم پر غالب رہتے ہیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے دل میں چھپے ہوئے خیال کو جان لیا اور قریب آکر آپ نے ان کے سینے پرہاتھ مارا اور فرمایا کہ ہم خدا کی طاقت سے غالب آجاتے ہیں۔ یہ سن کر انہوں نے بلند آواز سے کہا کہ ”میں شہادت دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں۔” اور محدث حاکم اور ان کے شاگرد امام بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یہ روایت کی ہے کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ ”کاش!میں ایک فوج جمع کرکے دوبارہ ان سے جنگ کرتا”ادھر ان کے دل میں یہ خیال آیا ہی تھا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ ”اگر تو ایسا کریگا تو اللہ تعالیٰ تجھے ذلیل و خوار کردے گا۔” یہ سن کر حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ توبہ و استغفار کرنے  لگے اور عرض کیا کہ مجھے اس وقت آپ کی نبوت کا یقین حاصل ہوگیاکیونکہ آپ نے میرے دل میں چھپے ہوئے خیال کو جان لیا۔(1) (زرقانی ج ۲ ص ۳۴۶)
    یہ بھی روایت ہے کہ جب سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان پر اسلام پیش فرمایا تھا تو انہوں نے کہا تھاکہ پھر میں اپنے معبود عزیٰ کو کیا کروں گا؟ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برجستہ فرمایا تھا کہ ”تم عزیٰ پر پاخانہ پھر دینا” چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب عزیٰ کو توڑنے کے لئے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روانہ فرمایا توساتھ میں حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی بھیجا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے معبود عزیٰ کو توڑ ڈالا۔ یہ محمد بن اسحاق کی روایت ہے اور ابن ہشام کی روایت یہ ہے کہ عزیٰ کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توڑا تھا۔(2) واللہ اعلم۔ (زرقانی ج۲ ص ۳۴۹)
Exit mobile version