حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ اس بات پرتمام علماء امت کا اجماع ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو گالی دینے والا یا ان کی ذات،ان کے خاندان، اُن کے دین،ان کی کسی خصلت میں نقص بتانے والا یا اس کی طرف اشارہ کنایہ کرنے والا یا حضور کو بدگوئی کے طریقے پر کسی چیزسے تشبیہ دینے والا یا آپ کو عیب لگانے والا یا آپ کی شان کو چھوٹی بتانے والا یا آپ کی تحقیر کرنے والا بادشاہ اسلام کے حکم سے قتل کر دیا جائے گا۔ اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر لعنت کرنے والا یا آپ کے لئے بددعا کرنے والا یا آپ کی طرف کسی ایسی بات کی نسبت کرنے والا جو آپ کے منصب کے لائق نہ ہو یا آپ کے لئے کسی مضرت کی تمنا کرنے والا یا آپ کی مقدس جناب میں کوئی ایسا کلام بولنے والا جس سے آپ کی شان میں استخفاف ہوتا ہو یا کسی آزمائش یا امتحان کی باتوں سے آپ کو عار دلانے والا بھی سلطان اسلام کے حکم سے قتل کر دیا جائے گا۔ اور وہ مرتد قرار دیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور اس مسئلہ میں علماء امصار اور سلف صالحین کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایسا شخص کافر قرار دے کر قتل کر دیا جائے گا۔ محمدبن سحنون علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں بدزَبانی کرنے والا اور آپ کی تنقیص کرنے والا کافر ہے اور جو اس کے کفر اور عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے اور توہین رسالت کرنے والے کی دنیامیں یہ سزا ہے کہ وہ قتل کر دیاجائے گا۔(1) (شفاء شریف جلد۲ ص۱۸۹ و ص۱۹۰)
اسی طرح حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلقین یعنی آپ کے اصحاب، آپ کے اہل بیت، آپ کی ازواج مطہرات وغیرہ کو گالی دینے والے کے بارے میں فرمایا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اہل بیت و آپ کی ازواج مطہرات اور آپ کے اصحاب کو گالی دینا یا انکی شان میں تنقیص کرنا حرام ہے اور ایسا کرنے والا ملعون ہے۔ (1)
(شفاء شریف جلد۲ ص۲۶۶)
یہی و جہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اس قدر ادب و احترام کرتے تھے اور آپ کی مقدس بارگاہ میں اتنی تعظیم و تکریم کا مظاہرہ کرتے تھے کہ حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب کہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار مکہ کے نمائندہ بن کر میدان حدیبیہ میں گئے تھے تو وہاں سے واپس آ کر انہوں نے کفار کے مجمع میں علی الاعلان یہ کہا تھا کہ
اے میری قوم! میں نے بادشاہ رُوم قیصر اور بادشاہ فارس کسریٰ اور بادشاہ حبشہ نجاشی سب کا دربار دیکھا ہے مگر خدا کی قسم! میں نے کسی بادشاہ کے درباریوں کو اپنے بادشاہ کی اتنی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جتنی تعظیم محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) کے اصحاب محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی کرتے ہیں۔(2)(بخاری جلد۱ ص۳۸۰ باب الشروط فی الجہاد وغیرہ)
چنانچہ مندرجہ ذیل مثالوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب کبار اپنے آقائے نامدار کے دربار میں کس قدر تعظیم و تکریم کے جذبات سے سرشار رہتے تھے۔