ذوالقرنین کا نام ”سکندر”ہے۔ یہ حضرت خضر علیہ السلام کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام ان کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور یہ ایک بڑھیا کے اکلوتے فرزند ہیں۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔ صحیح قول یہی ہے کہ یہ نبی نہیں ہیں بلکہ ایک بندئہ صالح ہیں جو ولایت کے شرف سے سرفراز ہیں۔
(صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)
ذوالقرنین کیوں کہلائے؟:۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ ذوالقرنین (دو سینگوں والے)کے لقب سے اس لئے مشہور ہو گئے کہ انہوں نے دنیا کے دو سینگوں یعنی دونوں کناروں کا چکر لگایا تھا۔ اور بعض کا قول ہے کہ ان کے دور میں لوگوں کے دو قرن ختم ہو گئے سو برس کا ایک قرن ہوتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان کے دو گیسو تھے اس لئے ذوالقرنین کہلاتے ہیں۔ اور یہ بھی ایک قول ہے کہ ان کے تاج پر دو سینگ بنے ہوئے تھے۔ اور بعض اس کے قائل ہیں کہ خود ان کے سر پر دونوں طرف ابھار تھا جو سینگ جیسا نظر آتا تھا اور بعضوں نے یہ وجہ بتائی کہ چونکہ ان کے باپ اور ماں نجیب الطرفین اور شریف زادہ تھے اس لئے لوگ ان کو ذوالقرنین کہنے لگے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ( مدارک التنزیل، ج۳،ص۲۲۲،پ۱۶، الکہف:۸۳)
اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام روئے زمین کی بادشاہی عطا فرمائی تھی۔ دنیا میں کل چار بادشاہ ایسے ہوئے ہیں جن کو پوری زمین کی پوری بادشاہی ملی۔ ان میں دو مومنین تھے اور دو کافر۔ مومن تو حضرت سلیمان علیہ السلام اور ذوالقرنین ہیں اور کافر ایک بخت نصر اور دوسرا نمرود ہے۔ اور تمام روئے زمین کے ایک پانچویں بادشاہ اس امت میں ہونے والے ہیں جن کا اسم گرامی حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ ہے۔
( صاوی، ج۴،ص۱۲۱۶،پ۱۶،الکہف:۸۳)
ذوالقرنین کے تین سفر:۔قرآن مجید میں حضرت ذوالقرنین کے تین سفروں کا حال بیان ہوا ہے جو سورہ کہف میں ہے۔ ہم قرآن مجید ہی سے ان تینوں سفروں کا حال تحریر کرتے ہیں، جن کی روداد بہت ہی عجیب اور عبرت خیز ہے۔
پہلا سفر:۔حضرت ذوالقرنین نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص آب ِ حیات کے چشمہ سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنین نے مغرب کا سفر کیا۔ آپ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو آب ِ حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے اور اس کا پانی بھی پی لیا مگر حضرت ذوالقرنین کے مقدر میں نہیں تھا، وہ محروم رہ گئے۔ اس سفر میں آپ جانب مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی کا نام و نشان ہے وہ سب منزلیں طے کر کے آپ ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا کہ وہ ایک سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ جیسا کہ سمندری سفر کرنے والوں کو آفتاب سمندر کے کالے پانی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ وہاں ان کو ایک ایسی قوم ملی جو جانوروں کی کھال پہنے ہوئے تھی۔ ا س کے سوا کوئی دوسرا لباس ان کے بدن پر نہیں تھا اور دریائی مردہ جانوروں کے سوا ان کی غذا کا کوئی دوسرا سامان نہیں تھا۔ یہ قوم ”ناسک”کہلاتی تھی۔ حضرت ذوالقرنین نے دیکھا کہ ان کے لشکر بے شمار ہیں اور یہ لوگ بہت ہی طاقت ور اور جنگجو ہیں۔ تو حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے گرد اپنی فوجوں کا گھیرا ڈال کر ان لوگوں کو بے بس کردیا۔ چنانچہ کچھ تو مشرف بہ ایمان ہو گئے کچھ آپ کی فوجوں کے ہاتھوں مقتول ہو گئے۔
دوسرا سفر:۔پھر آپ نے مشرق کا سفر فرمایا یہاں تک کہ جب سورج طلوع ہونے کی جگہ پہنچے تو یہ دیکھا کہ وہاں ایک ایسی قوم ہے جن کے پاس کوئی عمارت اور مکانات نہیں ہیں۔ ان لوگوں کا یہ حال تھا کہ سورج طلوع ہونے کے وقت یہ لوگ زمین کی غاروں میں چھپ جاتے تھے۔ اور سورج ڈھل جانے کے بعد غاروں سے نکل کر اپنی روزی کی تلاش میں لگ جاتے تھے۔ یہ لوگ قوم ”منسک” کہلاتے تھے۔ حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے مقابلہ میں بھی لشکر آرائی کی اور جو لوگ ایمان لائے ان کے ساتھ بہترین سلوک کیا اور جو اپنے کفر پر اڑے رہے ان کو تہ تیغ کردیا۔
تیسرا سفر:۔پھر آپ نے شمال کی جانب سفر فرمایا یہاں تک کہ ”سدین”(دو پہاڑوں کے درمیان)میں پہنچے تو وہاں کی آبادی کی عجیب و غریب زبان تھی۔ ان لوگوں کے ساتھ اشاروں سے بمشکل بات چیت کی جا سکتی تھی۔ ان لوگوں نے حضرت ذوالقرنین سے یاجوج ما جوج کے مظالم کی شکایت کی اور آپ کی مدد کے طالب ہوئے۔
یاجوج و ماجوج:۔یہ یافث بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک فسادی گروہ ہے۔ اور ان لوگوں کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے۔ یہ لوگ بلا کے جنگجو خونخوار اور بالکل ہی وحشی اور جنگلی ہیں جو بالکل جانوروں کی طرح رہتے ہیں۔ موسم ربیع میں یہ لوگ اپنے غاروں سے نکل کر تمام کھیتیاں اور سبزیاں کھا جاتے تھے۔ اور خشک چیزوں کو لاد کر لے جاتے تھے۔ آدمیوں اور جنگلی جانوروں یہاں تک کہ سانپ، بچھو، گرگٹ اور ہر چھوٹے بڑے جانور کو کھا جاتے تھے۔
سد ِ سکندری:۔حضرت ذوالقرنین سے لوگوں نے فریاد کی کہ آپ ہمیں یاجوج وماجوج کے شر اور اُن کی ایذاء رسانیوں سے بچایئے اور ان لوگوں نے ان کے عوض کچھ مال دینے کی بھی پیش کش کی تو حضرت ذوالقرنین نے فرمایا کہ مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے سب کچھ دیا ہے۔ بس تم لوگ جسمانی محنت سے میری مدد کرو۔ چنانچہ آپ نے دونوں پہاڑوں کے درمیان بنیاد کھدوائی۔ جب پانی نکل آیا تو اس پر پگھلائے تانبے کے گارے سے پتھر جمائے گئے اور لوہے کے تختے نیچے اوپر چن کر اُن کے درمیان میں لکڑی اور کوئلہ بھروادیا۔ اور اُس میں آگ لگوادی۔ اس طرح یہ دیوار پہاڑ کی بلندی تک اونچی کردی گئی اور دونوں پہاڑوں کے درمیان کوئی جگہ نہ چھوڑی گئی۔ پھر پگھلایا ہوا تانبا دیوار میں پلا دیا گیا جو سب مل کر بہت ہی مضبوط اور نہایت مستحکم دیوار بن گئی۔
( خزائن العرفان،ص۵۴۵۔۵۴۷،پ۱۶، الکہف: ۸۶تا ۹۸)
قرآن مجید کی سورہ کہف میں حَتّٰی اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ سے مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًا پہلے سفر کا ذکر ہے پھر ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا سے خُبْرًا تک دوسرے سفر کا تذکرہ ہے اور ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا سے وَعْدُ رَبِّیْ حَقًّا تک تیسرے سفر کی روداد ہے۔