حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کی ہدایت واصلاح اور ان کی صلاح و فلاح کے لئے جیسی جیسی تکلیفیں برداشت فرمائیں اور اس راہ میں آپ کو جو جو مشکلات درپیش ہوئیں ان کا کچھ حال آپ اس کتاب میں پڑھ چکے ہیں۔ پھر آپ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اسکی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ کی شفقت و رحمت کی جو کیفیت ہے اس پر قرآن میں خداوند قدوس کا فرمان گواہ ہے کہ
لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾ (1)
بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پربہت ہی نہایت ہی رحم فرمانے والے ہیں۔(سورہ توبہ)
پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لئے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے۔ یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک پر ورم آ جاتا تھا۔
ظاہر ہے کہ حضور سرور انبیاء، محبوب کبریا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے جو جومشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پرفرض و واجب ہے۔
حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے آپ کے مقدس حقوق کو اپنی کتاب ”شفاء شریف” میں بہت ہی مفصل طورپر بیان فرمایا۔ ہم یہاں انتہائی اختصار کے ساتھ اس کا خلاصہ تحریر کرتے ہوئے مندرج ذیل آٹھ حقوق کا ذکرکرتے ہیں۔
(۱) ایمان بالرسول
(۲) اتباع ِسنت رسول
(۳)اطاعتِ رسول
(۴)محبتِ رسول
(۵)تعظیم ِرسول
(۶)مدح رسول
(۷)درود شریف
(۸)قبرانور کی زیارت(1)