میں کیسے کہہ دوں کہ اس کا ضمیر ہے زندہ
جو اپنی بھول پہ ہوتا نہیں ہے شرمندہ
رہا ہے جس کو سروکار اپنی مطلب سے
بنا ہے اپنے قبیلے کا وہ نمائندہ
نشانیاں مرے اسلاف کی منور ہیں
ورق ورق پہ ہوں جیسے حروفِ تابندہ
رچی تھی جس نے اجالوں کے قتل کی سازش
وہ آدمی تھا کسی شہر شب کا باشندہ
میں اپنی سادگی شعروں میں چھوڑ جاؤں گا
رکھے گی یاد جنھیں پڑھ کے نسلِ آئندہ
ثبات دنیا میں حاصل نہیں کسی کو سعیدؔ
بس ایک ذا تِ خدا عرش پر ہے پائندہ
سعید رحمانی