نبی کی ہدایت کرنے کی صورتیں اوران کی پہچان

    الف: جن آیا ت میں فرمایا گیا ہے کہ نبی ہدایت نہیں کرتے وہاں مراد ہے اللہ کی مرضی کے خلاف ،اس کے مقابل ہدایت نہیں کرتے کہ رب چاہے کسی کو گمراہ کرنا اور نبی ہدایت کردیں یہ ناممکن ہے ۔
     ب : جہاں فرمایا گیا ہے کہ نبی ہدایت کرتے ہیں وہاں مراد ہے باذن الٰہی ہدایت کرتے ہیں ۔
” الف” کی مثال یہ ہے:
(1) اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۵۶﴾
بے شک تم ہدایت نہیں کرتے جسے محبت کر و لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت والوں کو۔(پ20،القصص:56)
    لطیفہ: اس جگہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اَحْبَبْتَ فرمایا اور اللہ کیلئے یَشَاءُ فرمایا دونوں جگہاَحْبَبْتَ یا دو نوں جگہ یَشَاءُ نہیں بولا گیا ۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ساری مخلوق ہی سے محبت فرماتے ہیں ۔کیونکہ رحمت للعالمین ہیں اورآپ کو پسند ہے کہ سب کو ہی ہدایت ملے مگر آپ کی اس محبت پر ہدایت نہیں ملتی لیکن آپ اسی کی ہدایت چاہتے ہیں جس کی ہدایت رب چاہے جو فنا فی اللہ ہو وہ اپنی مشیت رب کی مشیت میں فنا کر دیتا ہے ۔ اس کے بغیر چاہے چاہتا بھی نہیں رب تعالیٰ بھی ربوبیت کے لحاظ سے ساری مخلوق سے محبت کرتا ہے کیونکہ رب العالمین ہے اسی لئے ہادی بھیجے مگر چاہتا اس کی ہدایت ہے جس کی ہدایت میں حکمت ہے تو ہدایت نہ حضور کی محض محبت سے ملتی ہے نہ اللہ کی محض محبت سے ، ہاں رب کے ارادہ سے اور پھرحضور کے ارادے سے ہدایت نصیب ہوتی ہے ۔
(1) وَ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنۡ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الۡاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاۡتِیَہُمۡ بِاٰیَۃٍ ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدٰی فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الْجٰہِلِیۡنَ ﴿۳۵﴾
اور اگر ان کفار کا پھر نا آپ پر شاق گزرا ہے تو اگر تم سے ہوسکے تو زمین میں کوئی سرنگ تلاش کر لو یا آسمان میں زینہ پھر ان کیلئے نشانی لے آؤ اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا پس تم نادان نہ بنو۔(پ7،الانعام:35)
(2) لَیۡسَ عَلَیۡکَ ہُدٰىہُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ
آپ پر ان کی ہدایت نہیں لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دے ۔(پ3،البقرۃ:272)
    ان جیسی تمام آیتو ں میں رب کے خلاف مرضی ہدایت دینا مراد ہے یہ نہ نبی سے ممکن ہے نہ قرآن سے ۔”ب ”کی مثال یہ ہے :
(1) وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾
اور تم اے محبوب ہدایت کرتے ہو سیدھے راستے کی ۔(پ25،الشورٰی:52)
(2) اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقْوَمُ
بے شک قرآن ہدایت دیتا ہے اس راستہ کی جو سیدھا ہے ۔(پ15،بنی اسرآء یل:9)
(3) یَتْلُوۡا عَلَیۡہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمْ
وہ نبی مسلمانوں پر اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں۔(پ4،اٰل عمرٰن:164)
(4) شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ
ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا لوگوں کیلئے ہدایت اور راہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں ہیں۔(پ2،البقرۃ:185)
    ان جیسی تمام آیات میں جن میں قرآن یا توریت یا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہادی فرمایا گیا ہے ۔ ہدایت سے مراد اللہ کی مرضی سے راہ دکھانا ہے ۔
Exit mobile version