صلح حدیبیہ کے بیان میں آپ پڑھ چکے کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں ایک یہ شرط بھی درج تھی کہ قبائل عرب میں سے جو قبیلہ قریش کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہے وہ قریش کے ساتھ معاہدہ کرے اور جو حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے معاہدہ کرنا چاہے وہ حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرے۔
چنانچہ اسی بنا پر قبیلہ بنی بکر نے قریش سے باہمی امداد کا معاہدہ کرلیا اور قبیلہ بنی خزاعہ نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے امدادباہمی کا معاہدہ کرلیا۔ یہ دونوں قبیلے مکہ کے قریب ہی میں آباد تھے لیکن ان دونوں میں عرصہ دراز سے سخت عداوت اور مخالفت چلی آرہی تھی۔
ایک مدت سے توکفارقریش اور دوسرے قبائل عرب کے کفار مسلمانوں سے جنگ کرنے میں اپنا سارا زور صرف کررہے تھے لیکن صلح حدیبیہ کی بدولت جب مسلمانوں کی جنگ سے کفارقریش اور دوسرے قبائل کفار کو اطمینان ملا تو قبیلہ بنی بکر نے قبیلہ بنی خزاعہ سے اپنی پرانی عداوت کا انتقام لینا چاہا اور اپنے حلیف کفارِقریش سے مل کر بالکل اچانک طورپر قبیلہ بنی خزاعہ پر حملہ کردیا اور اس حملہ میں کفارقریش کے تمام رؤسا یعنی عکرمہ بن ابی جہل، صفوان بن امیہ و سہیل بن عمرو وغیرہ بڑے بڑے سرداروں نے علانیہ بنی خزاعہ کو قتل کیا۔ بے چارے بنی خزاعہ اس خوفناک ظالمانہ حملہ کی تاب نہ لاسکے اور اپنی جان بچانے کے لئے حرم کعبہ میں پناہ لینے کے لئے بھاگے۔ بنی بکر کے عوام نے تو حرم میں تلوار چلانے سے ہاتھ روک لیا اور حرم الٰہی کا احترام کیا۔ لیکن بنی بکر کا سردار ”نوفل” اس قدر جوش انتقام میں آپے سے باہر ہوچکا
تھا کہ وہ حرم میں بھی بنی خزاعہ کو نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کرتا رہا اور چلا چلاکر اپنی قوم کو للکارتا رہا کہ پھر یہ موقع کبھی ہاتھ نہیں آسکتا۔ چنانچہ ان درندہ صفت خونخوار انسانوں نے حرم الٰہی کے احترام کو بھی خاک میں ملا دیااور حرم کعبہ کی حدود میں نہایت ہی ظالمانہ طورپر بنی خزاعہ کا خون بہایااور کفارقریش نے بھی اس قتل و غارت اور کشت و خون میں خوب خوب حصہ لیا۔ (1)(زرقانی ج ۲ ص ۲۸۹)
ظاہر ہے کہ قریش نے اپنی اس حرکت سے حدیبیہ کے معاہدہ کو عملی طورپر توڑ ڈالا۔ کیونکہ بنی خزاعہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے معاہدہ کرکے آپ کے حلیف بن چکے تھے، اس لئے بنی خزاعہ پر حملہ کرنا، یہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کے برابر تھا۔ اس حملہ میں بنی خزاعہ کے تیئیس(۲۳) آدمی قتل ہوگئے۔
اس حادثہ کے بعد قبیلۂ بنی خزاعہ کے سردار عمروبن سالم خزاعی چالیس آدمیوں کا وفد لے کر فریاد کرنے اور امدادطلب کرنے کے لئے مدینہ بارگاہ رسالت میں پہنچے اور یہی فتح مکہ کی تمہید ہوئی۔