حضرات صحابہ کرام آپ کی مقدس مجالس میں حاضر ہو کر جس طرح اپنی دین و دنیا کی تمام حاجتیں طلب فرماتے تھے اسی طرح اپنی دعاؤں میں آپ کو وسیلہ بھی بنایا کرتے تھے۔ بلکہ خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کو یہ تعلیم دی کہ وہ اپنی دعاؤں میں رسول کی مقدس ذات کو خداوند تعالیٰ کے دربار میں وسیلہ بنائیں۔ چنانچہ ”معجزات” کے ذکر میں آپ ایک نابینا کے بارے میں یہ حدیث پڑھ چکے کہ ایک نابینا بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ اﷲ تعالیٰ سے دعا کردیں کہ وہ مجھے عافیت بخشے آپ نے فرمایا کہ اگرتو چاہے تو میں دعا کر دیتا ہوں اور اگر تو چاہے تو صبر کر صبر تیرے حق میں اچھا ہے۔ جب اس نے دعا کے لئے اصرار کیا تو آپ نے اس کو حکم دیا کہ تم اچھی طرح وضو کرکے یوں دعا مانگو کہ اَللّٰھُمَّ اِنّیْ اَسْئَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَامُحَمَّدُ اِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہٖ لِتُقْضٰی لِیْ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ
یااللہ! میں تیری بارگاہ میں سوال کرتا ہوں اور تیرے نبی،نبی رحمت کا وسیلہ پیش کرتا ہوں یا محمد! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں آپ کا وسیلہ پیش کیا ہے اپنی اس ضرورت میں تا کہ وہ پوری ہو جائے یا اﷲ! تو میرے حق میں حضور کی شفاعت قبول فرما۔
اس حدیث کو ترمذی و نسائی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے فرمایا کہ ھذا حدیث حسن صحیح غریب اور امام بیہقی و طبرانی نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے مگر امام بیہقی نے اتنا اور کہا ہے کہ اس نابینا نے ایسا کیا اور اس کی آنکھیں اچھی ہوگئیں۔ (1)(وفاء الوفا جلد۲ ص۴۳۰)