ام المؤمنین سیدہ صفیہ بنت حییّ بن اخطب رضی اللہ تعالیٰ عنہا
ام المؤمنین سیدہ صفیہ بنت حییّ بن اخطب بنی اسرائیل سے حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔
(المواہب اللدنیۃ،المقصد الثانی،الفصل الثالث،ذکر ازواجہ الطاہرات…الخ،ج۱، ص۴۱۲)
نکاح مع سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
ام المؤمنین سیدہ صفیہ بنت حیی خیبر کے قیدیوں میں تھيں۔ حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کو اپنے لئے منتخب کرلیا۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آئیں لوگوں نے کہا وہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔حسینہ جمیلہ ہونے کے علاوہ قبیلہ کے سردار کی بیٹی بھی ہیں لہٰذا مناسب یہی ہے، کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ مخصوص کی جائیں۔ مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ان قیدی باندیوں میں سے کوئی اور لے لو۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سیدہ صفیہ کے چچا کی لڑکی ان کے بدلہ میں مرحمت فرمائی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سات باندیوں کے بدلہ میں خریدا۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے انہیں آزاد فرمادیا اور نکاح کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر بنایا۔
(مدارج النبوت،قسم سوم،باب ششم،وصل ذکر غزوہ خیبر…الخ،ج۲،ص۲۴۹)
سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا خواب
سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خواب میں دیکھا کہ چاند ان کی آغوش میں
آگیا ہے جسے اپنے پہلے شوہر کنانہ سے بیان کیا۔ اس نے کہا کہ تو اس بات کی خواہش رکھتی ہے کہ اس بادشاہ کی بیوی بنے جو مدینہ میں ہے اور ایک طمانچہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مارا جس سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آنکھ نیلی پڑ گئی،اس طمانچہ کا اثر ظاہر تھا، سرور دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے استفسار پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ساری حقیقت حال بیان کردی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ذکر ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج۸،ص۹۶)
سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ادب
غزوہ خیبرسے واپسی پر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سواری پر رکھے تاکہ سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے قدموں کو حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی ران پر رکھ کر سوار ہوجائیں۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے قدم کے بجائے اپنے زانو کو حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی ران پر رکھ کر سوار ہوگئیں۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کو اپنا ردیف بنایا اور پردہ باندھا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ذکر ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج۸،ص۹۶)
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی باری کے دن ان کے پاس تشریف لائے، سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو روتا پا کر سبب گریہ وزاری پوچھا عرض کیا: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آکر مجھے ایذا دیتی ہیں، کہتی ہیں کہ ہم صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بہترہیں کیونکہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے نسب مبارک کی شرافت حاصل ہے، حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :تم نے کیوں نہیں کہا کہ تم کیوں کر مجھ سے بہتر ہو، حالانکہ میرے باپ
ہارون علیہ السلام ہیں اور میرے چچا موسیٰ علیہ السلام ہیں۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۸۳)
سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کتب معتبرہ میں دس حدیثیں مروی ہیں۔ ایک متفق علیہ اور باقی نو دیگر کتابوں میں ہیں۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۸۳)
وصال
ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال مختلف اقوال کے مطابق ۳۶ھیا ۵۲ھ میں ہوا،یہ قول بھی ہے کہ خلافت فاروقی میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ہوا، اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۸۳)