الف :جب غیر خدا کو پکارنے سے منع فرمایا جاوے ، یا پکارنے والوں کی برائی بیان ہوتواس پکارنے سے مراد معبود سمجھ کر پکارنا ہے یعنی پوجنا ۔
ب:جہاں غیر خدا کو پکارنے کا حکم ہے یا اس پکارنے پر ناراضگی کا اظہار نہ ہو تو اس سے مراد بلانایا پکارنا ہی ہوگا۔
” الف” کی مثال یہ ہے :
(1) وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ
اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو خدا کے سوا پوجے ۔(پ26،الاحقاف:5)
(2) فَلَا تَدْعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾
اور اللہ کے ساتھ کسی کونہ پوجو۔(پ29،الجن:18)
ان جیسی صدہا آیتوں میں دعا کے معنی پوجنا ہے یعنی معبود سمجھ کر پکارنا نہ کہ محض پکارنا ۔
”ب” کی مثال ان آیات میں ہے :
(1) وَ ادْعُوۡا مَنِ اسْتَطَعْتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ
اللہ کے سوا جس کو طاقت رکھتے ہو بلا لو۔(پ11،یونس:38)
(2) اُدْعُوۡہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ
پکارو انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے ۔(پ21،الاحزاب:5)
ان جیسی صدہا آیات میں دعا کے معنی پکارنا یا بلانا ہے ۔ اس کی پوری تحقیق پہلے باب میں دعا کی بحث میں گذرچکی ، وہاں مطالعہ کرو ۔