محبت و نفرت کا معیار

دو۲عالَم کے مالِک و مختار باذنِ پروردگار ، مکّی مَدَنی سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی یاد کو سینے میں بسانے والوں سے مَحبَّت کی جائے اور ان کی ہم نشینی کو سَعَادَت سمجھا جائے جبکہ دُشمنانِ رَسول سے قطعی کوئی تعلّق رَوا نہ رکھا جائے۔2 جیسا کہ مَرْوِی ہے کہ ایک بار حضرت سَیِّدُنا ابو سُفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اِیمان لانے سے پہلے مدینۂ مُنَوَّرہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً میں حاضِر ہوئے تو اپنی بیٹی اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہَا سے ملنے ان کے مَکان پر گئے۔ جب آپ نے بِسْتَرِ رَسول  پر بیٹھنا چاہا تو سَیِّدہ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے جَلْدی سے بِسْتَر اُٹھا لیا، حیران ہوکر بولے:بیٹی! تم نے بِسْتَر کیوں اُٹھا لیا؟ کیا بِسْتَر کو میرے لائق نہیں سمجھا؟یا مجھ کو اس بِسْتَر کے قابِل نہیں جانا؟اُمُّ الْمُومِنِین نے جواب دیا:یہ بِسْتَر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ہے اور آپ مُشرِک وناپاک ہیں،اس لیے میرے دِل نے گوارا نہ کیا کہ آپ اس پر بیٹھیں۔3
Exit mobile version