گناہوں کی مُعافی کا ذَرِیْعَہ

گناہوں  کی مُعافی کا ذَرِیْعَہ

حضرتِ سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِی اللّٰہُ تَعالٰی عنہُ سے مروی ہے کہ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نَبُوَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا :’’جس نے مجھ پرایک مرتبہ دُرُو دِ پاک پڑھا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاس پر دس رَحمتیں   نازل فرمائے گا اس کے دس گُناہ مٹا دے گا اور اس کے دس دَرَجا ت بُلند فرمائے گا ۔‘‘ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبا ن، کتا ب الرقائق ،با ب الادعیہ،۲/ ۱۳۰،حدیث:۹۰۱،بتغیر)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یقینا دُرُود شریف پڑھنا نہایت ہی بہترین عمل ہے ۔ ہمیں  بھی دُرُود شریف کی کثرت کرنی چاہئے۔ بالخصوص جب سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا نامِ نامی، اسمِ گرامی لیں یا سنیں  تو اُس وَقت دُرُودِپاک  پڑھنے میں  ہرگز سُستی  نہیں   کرنی چاہئے ۔ چُنانچہ 
صَدرُ الشَّریعہ ، بدر الطَّریقہ مُفْتی محمد امجد علی اَعظمی عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقوی فرماتے ہیں  : زِندگی میں  ایک بار دُرُود شریف پڑھنا فرض ہے اور ہر جلسۂ ذِکر میں  (ایک بار) دُرُود شریف پڑھنا واجب ، خواہ خود نامِ اَقدس لے یا دوسرے سے سُنے اور اگر ایک مجلس میں  سو بار ذِکر آئے تو ہر بار دُرُودشریف پڑھنا چاہئے، اگر
 نامِ اَقدس لیا یا سُنا اور دُرُود شریف اس وَقت نہ پڑھا تو کسی دوسرے وَقت میں  اس کے بدلے کا پڑھ لے ۔ (بہارِشریعت ،۱/ ۵۳۳)
یاد رکھئے! جب بھی حُضُورِ پاک، صاحبِ لَولاکصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مبارک نام لیں  یا سنیں  تو ہمیں  بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی ذاتِ بابَرَکات پر دُرُود و سلام کے گجرے نچھاور کرتے رہنا چاہیے اور جو لوگ دُرُودِپاک پڑھنے میں  سُستی کرتے ہیں  یا بالکل ہی  نہیں   پڑھتے وہ اس حکایت سے درسِ عبرت حاصل کر یں  ۔چُنانچِہ

شَفَاعت کی نَوید

ایک آدمی حُضُورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  پر دُرُود شریف  نہیں   پڑھتا تھا ، ایک رات خَواب میں  زِیارت سے مُشرَّف ہوا ، آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے اس کی طرف توَجُّہ نہ فرمائی، اس نے عرض کی : ’’اے اللّٰہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں  ؟‘‘ فرمایا:’’  نہیں   ۔ ‘‘ اس شخص نے پوچھا: پھرآپ میری طرف توَجُّہ کیوں   نہیں   فرماتے ؟ فرمایا : ’’اس لیے کہ میں  تجھے  نہیں   پہچانتا۔ ‘‘اس شخص نے عرض کی : ’’حُضُور! آپ مجھے کیسے  نہیں   پہچانتے میں  تو آپ کی اُمَّت کا ایک فرد ہوں ۔‘‘ اور علما فرماتے ہیں  کہ آپ اپنے اُمّتیوں  کو اس سے بھی زیادہ پہچانتے ہیں  جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کو پہچانتاہے ۔ 

آپ نے فرمایا:’’ علما نے سچ کہا ، مگر تو مجھے دُرُودشریف کے ذَریعے یاد  نہیں   کرتا اور میں  اپنی اُمَّت کے لوگوں  کو دُرُودِپاک پڑھنے کی وجہ سے پہچانتا ہوں  ، جتناوہ مجھ پر دُرُود پڑھتے ہیں  میں  ا نہیں   اس قَدرہی پہچانتاہوں  ۔‘‘ جب وہ شخص بیدار ہواتو اس نے اپنے اُوپر لازم کرلیا کہ وہ حُضُور سرورکائنا تصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر روزانہ ایک سو مرتبہ دُرُودِ پاک پڑھے گا ،اب اس شخص نے روزانہ سو مرتبہ دُرُودِ پاک پڑھنا اپنا معمول بنا لیا ۔ کچھ مُدَّت بعد پھر حُضُور عَلَیْہِ السَّلام کے دیدار سے مُشرَّف ہوا، آپ عَلَیْہِ السَّلام نے فرمایا :میں  اب تجھے پہچانتا ہوں  اور میں  تیری شفاعت بھی کرونگا ۔ (مکاشفۃ لقلوب، ص ۷۹ملخصاً)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک حکیم کا قول ہے کہ بدن کی سَلامَتی کم کھانے میں  ، رُوح کی سلامتی گناہوں  کی کمی میں  اور دین (یعنی ایمان )کی سَلامَتی حُضُورنبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پردُرُود بھیجنے میں  ہے ۔   (مکاشفۃ القلوب ،ص ۳۴ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمیں  بھی اپنے ایمان کی حفاظت وسَلامَتی  کے لئے سرکا رصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُودِپاک پڑھنے کو اپنے صُبح و شام کا وَظِیْفہ بنالینا چاہیے کیونکہ مومن کی سب سے قیمتی شے اس کا ایمان ہوتی ہے۔ ہمیں  ہر وَقت اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر ہونی چاہئے ، جسے اپنے ایمان کی فکر نہ

 ہو تو موت کے وَقت اس کا ایمان سلب ہوجانے کا خطرہ ہے ۔ چُنانچہ

اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت ، مولانا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کا ارشاد ہے، عُلمائے کرام فرماتے ہیں  : ’’جس کو سَلْبِ ایمان کا خوف نہ ہو نَزع کے وَقت اُس کا ایمان سَلب ہوجانے کا شدید خطرہ ہے۔ ‘‘ (ملفوظات اعلیٰ حضرت ،حصّہ چہارم، ص ۳۹۰) 
اولیاءے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام ایمان چِھن جانے کے خَوف سے لَرزاں  و تَرساں  رہا کرتے تھے۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا یوسُف بن اَسباط رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  : ’’میں  ایک دَفعہ حضرتِ سیِّدُنا سُفیان ثَوریعَلَیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْقَوی کے پاس حاضِر ہوا ، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ساری رات روتے رہے ۔‘‘ میں  نے دریافت کیا :’’ کیا آپ گناہوں  کے خوف سے رو رہے ہیں  ؟‘‘ تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ایک تنکا اُٹھایا اور فرمایا:’’ گُناہ تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں  اِس تنکے سے بھی کم حَیثیَّت رکھتے ہیں  ، مجھے تو اس بات کاخَوف ہے کہ کہیں  ایمان کی دولت نہ چِھن جائے۔‘‘(منہاج العابدین ،ص۱۵۵)
پیارے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے کہ ہمارے اَسلافِ کرام کو ایمان چھن جانے کا کس قَدرخَوف تھا مگر اَفسوس کہ آج کل ہمارے مُعاشرے میں  فلموں  ڈِراموں ، فلمی گانوں  ، اَخباری مضمونوں  ، جنسی و رُومانی ناوِلوں  ، عِشقیہ وفِسقیہ افسانوں ، بچّوں  کی بیہودہ کہانیوں ، طرح طرح کے بے تُکے ہفت روزوں ،

 حَیاسوز ماہناموں  اور مُخَرِّبِ اَخلاق ڈائجسٹوں  اور مزاحِیہ چُٹکُلوں  کی کیسٹوں  وغیرہ کے ذَرِیعے کُفرِیّہ کلمات عام ہوتے جا رہے ہیں  اور ہماری غالِب اکثرِیَّت اس علم سے ناآشنا ہے جبکہ کُفرِیَّہ کلمات  کیمُتَعَلِّق علم حاصِل کرنا فرض ہے ۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولانا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہ رَحْمَۃُالرَّحمٰن فتاویٰ رَضَویہ جلد 23 صَفْحَہ 624 پر فرماتے ہیں  : ’’مُحَرَّمَاتِ باطِنِیَّہ(یعنی باطِنی ممنوعات مَثَلاً) تکبُّرو رِیا وعُجب (یعنی خُود پسندی)و حَسد وغیرہا اور اُن کے مُعَالََجَات (یعنی علاج) کا علم بھی ہر مسلمان پر  اَہَم فرائض سے ہے ۔‘‘ مزید صَفْحَہ 626 پر فتاویٰ شامی کے حوالے سے فرماتے ہیں  :’’ حرام اَلفاظ اور کُفرِیَّہ کلماتکے مُتَعَلِّق علم سیکھنا فرض ہے، اِس زمانے میں  یہ سب سے ضَروری اُمُور ہیں  ۔‘‘ (درمختار وردالمحتار،مطلب فی فرض الکفایۃ وفرض العین،۱/۱۰۷)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
کُفر کا لُغوی معنی ہے:’’کسی شے کوچُھپانا ۔‘‘ (اَلمُفْرَدات، ص ۷۱۴) اور اِصطِلاح میں  کسی ایک ضَرورتِ دینی کے انکا ر کو بھی کُفرکہتے ہیں  اگر چِہ باقی تمام ضَروریات ِدین کی تصدیق کرتا ہو ۔ (ماخوذ از بہارِ شریعت ،حصّہ ۱، ص۹۲) جیسے کوئی شخص اگر تمام ضَروریاتِ دین کو تسلیم کرتا ہو مگرنَماز کی فرضیّت یا ختمِ نبوَّت

 کا منکِر ہو وہ کافِر ہے ۔ کہ نَماز کو فرض ماننا اور سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو آخِری نبی ماننا دونوں  باتیں  ضَروریاتِ دین میں  سے ہیں  ۔

ضَر و ریاتِ دین کی تَعریف

ضَروریاتِ دین ،اسلام کے وہ اَحکام ہیں  ،جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں  ، جیسیاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی وَحدانِیّت(یعنی اس کا ایک ہونا) ، انبِیائے کرام عَلَیْہمُ السَّلامکی نَبُوَّت،نَماز، روزے ، حج ، جنَّت، دوزخ ، قِیامت میں  اُٹھایا جانا، حساب و کتاب لینا وغیرھا۔ مَثَلاً یہ عقیدہ رکھنا (بھی ضروریاتِ دین میں  سے ہے)  کہ حُضُور رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خاتَمُ النَّبِیِّین ہیں  حُضُورِ اکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد کوئی نیا نبی  نہیں   ہو سکتا ۔ عوام سے مُراد وہ مُسلمان ہیں  جو عُلَما کے طبقہ میں  شُمار نہ کئے جاتے ہوں  مگر عُلَماء کی صُحبت میں  بیٹھنے والے ہوں  اور عِلمی مسائل کا ذَوق رکھتے ہوں ۔  (بہارِ شریعت ،حصہ ۱ ،ص۹۲ملخصاً)

لمحۂ فکریہ 

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! فی زَمانہ ایمان کی حفاظت کا ذِہن کافی کم ہو گیا ہے، زَبان کی لگام بَہُت ہی ڈھیلی ہے ، اکثریت کاحال یہ ہے کہ بس جو مُنہ میں  آتا ہے بکے چلے جاتے  ہیں  ، فلموں  ، ڈِراموں  ، ناوِلوں  ، ڈائجسٹوں  ، اسکولوں  کی لائبریری کی کتابوں اور اَخباروں  میں  بھی بسا اَوقات طرح طرح کے کُفرِیات

 ہوتے ہیں  ۔ بالخصوص گانوں  میں  تو بے تحاشا کُفریات بکے جاتے ہیں  ج نہیں   ہم گنگناتے پھرتے ہیں  اور اس طرف کسی کی توَجُّہ بھی  نہیں   جاتی۔ اس قسم کے چند اَشعار بطور مثال پیش کیے جاتے ہیں  جو کہ صریح کفر ہیں  :

(1) سِیپ کا موتی ہے تُو یا آسماں  کی دھول ہے
تُو ہے قدرت کا کرِشمہ یا خُدا کی بھول ہے
اس شِعر میں  مَعَاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو بھولنے والا مانا گیا ہے جو کہ صریح کفر ہے ۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بھولنے سے پاک ہے ۔  چُنانچِہ پارہ16 سورۂ طٰہٰکی آیت نمبر52 میں  ارشاد ہوتا ہے
لَایَضِلُّ رَبِّیۡ وَ لَایَنۡسَی ﴿۫۵۲﴾ (پ ۶، طٰہٰ :۵۲ )
ترجمۂ کنزالایمان:میرا رَبّ نہ بہکے نہ بُھولے ۔
(2)تُجھ کو دی صورت پری سی دل  نہیں   تُجھ کو دیا
مِلتا خدا تو پوچھتا یہ ظُلم تو نے کیوں  کیا؟ 
اِس شِعر میں  دو صریح کفریات ہیں  :اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کومَعَاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلََّّ ظالم کہا گیا ہے (۲) اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر اعتِراض کیا گیا ہے۔
(3)او میرے رَبّا رَبّارے رَبّا یہ کیا غَضَب کیا  
جس کو بنانا تھا لڑکی اسے لڑکا بنا دیا
اِس کُفریات سے بھر پور شِعر میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر اعتِراض اور اس کی توہین ہے۔ 

مجھے دیدے ایمان پر اِستقامت

پئے سیِّدِ مُحْتَشَم یاالٰہی!
   (وسائلِ بخشش،ص۸۲)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یاد رکھئے ! قطعی کُفر پر مبنی ایک بھی شعر جس نے دِلچسپی کے ساتھ پڑھا ، سنا یا گایا وہ کُفر میں  جا پڑا اور اسلام سے خارج ہو کر کافرو مُرتد ہو گیا، اس کے تمام نیک اَعمال اَکارت ہو گئے یعنی پچھلی ساری نَمازیں  ، روزے ، حج وغیرہ تمام نیکیاں  ضائع ہو گئیں  ۔ شادی شُد ہ تھا تو نکاح بھی ٹوٹ گیا اگر کسی کامُرید تھا تو بیعت بھی خَتم ہو گئی ۔ اس پر فرض ہے کہ اس شِعر میں  جو کُفر ہے اُس سے فورًا توبہ کر ے اور کَلِمہ پڑھ کر نئے سرے سے مُسلمان ہو ۔ مُرید ہونا چاہے تو اب نئے سرے سے کسی بھی جامِعِ شرائط پیر کا مُرید ہو اگر سابِقہ بیوی کو رکھنا چاہے تودوبارہ نئے مہر کے ساتھ اُس سے نِکاح کرے ۔ 
جس کو یہ شک ہو کہ آیامیں  نے اس طرح کا شعر دلچسپی کے ساتھ گایا ، سنا، یا پڑھا ہے یا  نہیں   مجھے تو بس یوں  ہی فِلمی گانے سننے اور گنگنانے کی عادت ہے تو ایسا شخص بھی اِحتیاطًا توبہ کر کے نئے سرے سے مسلمان ہو جائے ، نیز تجدید بیعت اور تجدیدنکاح کر لے کہ اسی میں  دونوں جہاں  کی بھلائی ہے ۔(کفریہ کلمات، صفحہ۵۲۴-۵۲۵)

اے ہمارے پیارے اللّٰہعَزَّوَجلَّ!ہمیں  اپنے دِین وایمان کی حفاظت کی فِکر کرتے رہنے اورحُضُورِ پاکصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت میں  جھوم جھوم کرکثرت سے دُرُود و سلام پڑھنے کی توفیق عطا فرما ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭…٭…٭…٭
Exit mobile version