یہ لوگ یمن کے باشندے اور ”قبیلہ اشعر” کے معزز اور نامور حضرات تھے۔ جب یہ لوگ مدینہ میں داخل ہونے لگے تو جوشِ محبت اور فرط عقیدت سے رجز کا یہ شعر آواز ملا کر پڑھتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے کہ ؎
غَدًا نَلْقِی الْاَحِبَّۃ
مُحَمَّدًا وَّ حِزْبَہ
کل ہم لوگ اپنے محبوبوں سے یعنی حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے ملاقات کریں گے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ یمن والے آ گئے۔ یہ لوگ بہت ہی نرم دل ہیں ایمان تو یمنیوں کا ایمان ہے اور حکمت بھی یمنیوں میں ہے۔ بکری پالنے والوں میں سکون و وقار ہے اور اونٹ پالنے والوں میں فخر اور گھمنڈ ہے۔ چنانچہ اس ارشاد نبوی کی برکت سے اہل یمن علم و صفائی قلب اور حکمت و معرفت الٰہی کی دولتوں سے ہمیشہ مالا مال رہے۔ خاص کر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہ یہ نہایت ہی خوش آواز تھے اور قرآن شریف ایسی خوش الحانی کے ساتھ پڑھتے تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ان کا کوئی ہم مثل نہ تھا۔علم عقائد میں اہل سنت کے امام شیخ ابو الحسن اشعری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ انہی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔(2) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۷)