کیا معراج میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خداوند تعالیٰ کو دیکھا؟ اس مسئلہ میں سلف صالحین کا اختلاف ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور بعض صحابہ نے فرمایا
کہ معراج میں آپ نے اﷲ تعالیٰ کو نہیں دیکھا اور ان حضرات نے مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۱﴾ (1) کی تفسیر میں یہ فرمایاکہ آپ نے خدا کو نہیں دیکھا بلکہ معراج میں حضرت جبریل علیہ السلام کو انکی اصلی شکل و صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پرتھے اور بعض سلف مثلاً حضرت سعید بن جبیر تابعی نے اس مسئلہ میں کہ دیکھایا نہ دیکھا کچھ بھی کہنے سے توقف فرمایا مگر صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک بہت بڑی جماعت نے یہ فرمایا ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے سر کی آنکھوں سے اﷲ تعالیٰ کو دیکھا۔(2)(شفاء جلد۱ ص ۱۲۰ تا ۱۲۱)
چنانچہ عبداﷲبن الحارث نے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباس اور حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایک مجلس میں جمع ہوئے توحضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کوئی کچھ بھی کہتا رہے لیکن ہم بنی ہاشم کے لوگ یہی کہتے ہیں کہ بلاشبہ حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یقیناً اپنے رب کو معراج میں دو مرتبہ دیکھا۔ یہ سن کر حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس زور کے ساتھ نعرہ مارا کہ پہاڑیاں گونج اٹھیں اور فرمایا کہ بے شک حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا سے کلام کیا اور حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا۔
اسی طرح حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۱﴾ (3) کی تفسیر میں فرمایا کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ”رَأیْتُ ربِّیْ” یعنی میں نے اپنے رب کو دیکھا۔
محدث عبدالرزاق ناقل ہیں کہ حضرت امام حسن بصری اس بات پر حلف اٹھاتے تھے کہ یقینا حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اور بعض متکلمین نے نقل کیا ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی مذہب تھا اورابن اسحق ناقل ہیں کہ حاکم مدینہ مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ کیاحضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ”جی ہاں”
اسی طرح نقاش نے حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ آپ نے یہ فرمایا کہ میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے مذہب کا قائل ہوں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا، دیکھا ،دیکھا، اتنی دیر تک وہ دیکھاکہتے رہے کہ ان کی سانس ٹوٹ گئی۔(1) (شفاء جلد۱ ص ۱۱۹ تا ص ۱۲۰)
صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شریک بن عبداﷲ نے جو معراج کی روایت کی ہے اس کے آخر میں ہے کہ
حَتّٰی جَآءَ سِدْرَۃَ الْمُنْتَھیٰ وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّۃِ فَتَدَلّٰی حَتّٰی کَانَ مِنْہُ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ۔(2)(بخاری جلد ۲ ص ۱۱۲۰ با ب قول اﷲ: وکلم اﷲ ۔ الخ)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ پر تشریف لائے اور عزت والا جبار (اﷲ تعالیٰ) یہاں تک قریب ہوا اور نزدیک آیا کہ دو کمانوں یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا۔
بہرحال علماء اہل سنت کا یہی مسلک ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے شبِ معراج میں اپنے سر کی آنکھوں سے اﷲ تعالیٰ کی ذات مقدسہ کا دیدار کیا۔
اس معاملہ میں رویت کے علاوہ ایک روایت بھی خاص طور پر قابل تو جہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے محبوب کو اﷲ تعالیٰ نے انتہائی شوکت و شان اور آن بان کے ساتھ اپنا مہمان بنا کر عرش اعظم پر بلایا اور خلوت گاہ راز میں ۔۔۔۔۔کے نازو نیاز کے کلاموں سے سرفراز بھی فرمایا ۔مگر ان بے پناہ عنایتوں کے باوجود اپنے حبیب کو اپنا دیدار نہیں دکھایا اورحجاب فرمایا یہ ایک ایسی بات ہے جو مزاج عشق و محبت کے نزدیک مشکل ہی سے قابل قبول ہو سکتی ہے کیونکہ کوئی شاندار میزبان اپنے شاندار مہمان کو اپنی ملاقات سے محروم رکھے اور اس کو اپنا دیدار نہ دکھائے یہ عشق و محبت کا ذوق رکھنے والوں کے نزدیک بہت ہی ناقابل فہم بات ہے۔ لہٰذا ہم عشق بازوں کا گروہ تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرح اپنی آخری سانس تک یہی کہتا رہے گا کہ
؎
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود
(اعلیٰ حضرت رحمہ اﷲ تعالیٰ )